سلام یا حسینؑ 2014 |
---|
شاعرہ : ارم اقبال نقوی صاحبہ |
کبھی سوچا باغِ حیات میں ، یہ جو سوگ شکلِ بہار ہے جمِ عاشقاں ہے جو سینہ ِ زن ، کہ مسیحا اک سرِ دار ہے یا حسینؑ تیرے ہی سوگ میں ، ہیں حزین صدیوں کی ساعتیں تو گواہی سورہ ِ عصر کی ، ہر قرن پہ تیرا حصار ہے ہے گواہ فُطرسِ نیم جاں ، تو نے مہد میں بھی عطا کیا کہ جہانِ کن فیکون میں ، تو ولیِ پروردگار ہے تیرے سائے میں جو اماں ملے ، کہیں اور سے وہ کہاں ملے تو شجر جو کٹ کے بھی سایہ دار ، تیرا شجرہ عالی وقار ہے نہ زمانے کو نہ ہی وقت کو ، نہ سمجھ سکاکبھی بخت کو جو حسینؑ کو نہ سمجھ سکے ، وہ ذلیل ہے وہ خوار ہے تیرا سربریدہ ہوا مگر ، تیرے لب قرآن سنا گئے ہیں گواہ کوفہ و شام بھی ، تو نوائے ربِ قہار ہے تیرےحق میں لکھے قبیلِ حق ، کہاں قید مذہب و دین کی جو ہے معرفت کے عروج پر ، وہ تیرا قصیدہ نگار ہے ہے ارم کو آس و امید سب ، تیرے در سے میرے حسینؑ ! سن کہ مصیبتوں میں ہر ایک پل ، تو ہی میرے دل کی پکار ہے |
سلام یا حسینؑ 2015 |
---|
شاعرہ : ارم نقوی صاحبہ |
زندہ نشاں قبیلے کی پہچان کربلا اک مصحف حیات ہے عنوان کربلا ۔ آزاد ہے یہ مذہب و مسلک کی قید سے انسانیت کے واسطے برهان کربلا ۔ ظالم کو روکنا ، نہیں واجب قلیل پر ایسی ہر اک دلیل سے انجان کربلا ۔ منصف ہو باضمیر تو مانے گا یہ ضرور ہر عہد کی ہے مستند میزان کربلا ۔ دیں کا سفینہ ڈوبنے کا خوف اب نہیں لاریب کہ ہے قامع طغیان کربلا ۔ میثم زبان ہونے کا باعث بھی کربلا اور ہے مزاج بو ذر و سلمان کربلا ۔ قاسم کا بانکپن ، علی اکبر کا ہے شباب اصغر کی ایک ہلکی سی مسکان کربلا ۔ اوراق مقاتل میں رقم ہے کہ سکینہ تعمیر کر گئ پس زندان کربلا ۔ بے تیغ فتح زینب و سجاد نے کیا کرتی رہے گی حشر تک اعلان کربلا قرآن کربلا ، میرا ایمان کربلا راہ نجات ، کلمہ یزدان کربلا ۔ حر( رض) جیسی حریت جسے ادراک میں ملی اس کو بنا دے صاخب عرفان کربلا ۔ مانگو ارم خدا ہمیں حرؑ سا نصیب دے کر دے ہمیں بھی صاحب وجدان کربلا |
سلام یا حسینؑ 2016 |
---|
شاعر |
کلام |
سلام یا حسینؑ 2017 |
---|
شاعر |
کلام |
سلام یا حسینؑ 2018 |
---|
شاعر |
کلام |
سلام یا حسینؑ 2019 |
---|
شاعرہ : ارم اقبال نقوی صاحبہ |
ساری دنیا کو غمِ شہؑ میں رُلانے والا چاند ابھرا ہے عزا خانے سجانے والا مرثیہ ، تعزیہ ، ماتم ، یہ مجالس گھر گھر کون ہے شہؑ کی عزاداری مِٹانے والا مائیں غازیؑ کے علم پر یہ دعا مانگتی ہیں اِک پسر چاہیے پرچم کواٹھانے والا ہم نے تہذیبِ عزا سے ہے تمدن سیکھا ایک مظلوم گھرانہ ہے سکھانے والا حر ؑ کے ماتھے پہ جو رومال تھا ، لکھا تھا وہاں درِ زہرا ؑ پہ جبیں اپنی جھکانے والا پھر تڑپنے لگے مقتل میں ہیں بے سر لاشے کوئی ھل من کی صدا پھر ہے لگانے والا مادرِ اصغرِ ؑبےشیر نہ بھولے گی کبھی خود کو جھولے سے تڑپ کر وہ گرانے والا اے سکینہ ؑ ، ذرا خاموش کہ مقتل میں ابھی سو گیا ہے تجھے سینے پہ سلانے والا لشکرِ شام تیرا نام رہے گا دشنام خیمے سادات کےنخوت سے جلانے والا ہیں رسن بستہ مگر پھر بھی خدا کو سجدے یہ تودستور ہے نبیوں کے گھرانے والا صوتِ داؤد ؑ کا مالک ہے لقب دین پناہ سورہِ کہف کو نیزے پہ سنانے والا نوحہ زینب ؑ کا یہی شام میں گونجا ہو گا میرا غازیؑ ہے کہاں پردے بچانے والا ہائے سجادؑ بندھے ہاتھوں لحد کھودتا ہے اے سکینہؑ تیری میت کو اٹھانے والا روک لے اپنا قلم ، دِ ل ہوا محزون ارؔم غم یہ ورثہ میں مِلا ہے نہیں جانے والا |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں