سلام یا حسینؑ 2014 |
---|
شاعرہ: نسرین سید صاحبہ |
یہ سمندر سا جو پانی ہے مرے سینے میں دشت نے پیاس بجھانی ہے مرے سینے میں کفِ افسوس ملا کرتی ہے اک موجِ فرات یہ جو اشکوں کی روانی ہے مرے سینے میں سر برہنہ کوئی شہزادی ہے اور دل نے مرے سبز چادر ، کوئی تانی ہے مرے سینے میں پیاس لکھتے ہیں محرم میں مرے اشکِ رواں تشنہ ہونٹوں کی کہانی ہے مرے سینے میں تعزیت سے تری یہ بار نہ ہلکا ہو گا ہے الگ سی، جو گرانی ہے مرے سینے میں یہ جو اک موج ، لہو بن کے ہے آنکھوں سے رواں کوئی تو رنجِ نہانی ہے مرے سینے میں کوئی رقّت مجھے سر سبز رکھے ہے نسریؔں اس کی رحمت کی روانی ہے مرے سینے میں |
سلام یا حسینؑ 2015 |
---|
شاعر |
نسرین سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو رنج ہے دل میں وہ رقم ہو بھی تو کیسے
شبیرؑ کے غم سا کوئی غم ہو بھی تو کیسے
بے گور و کفن، خون میں تر بھائی کا لاشہ
زینبؑ ، ترے غم جیسا الم ہو بھی تو کیسے
کوثر کی بشارت ہے جنہیں، پانی کو ترسیں
اب اس سے بڑا کوئی ستم ہو بھی تو کیسے
روئی ہے مری آنکھ ترے غم میں سکینہ
اب اور کسی غم میں یہ نم ہو بھی تو کیسے
وہ شامِ غریباں ، وہ گھڑی کرب و بلا کی
تحریر ہو غم ، تابِ قلم ہو بھی تو کیسے
ہیں سینہ سپر حق کے لیے شاہِ شہیداں
سر سامنے باطل کے جو خم ہو بھی تو کیسے
شبیرؑ کے غم میں نہ لہو آنکھ سے ٹپکے
پھر رحمتِ عالم کا کرم ہو بھی تو کیسے
|
سلام یا حسینؑ 2016 |
---|
شاعر |
کلام |
سلام یا حسینؑ 2017 |
---|
شاعر |
کلام |
سلام یا حسینؑ 2018 |
---|
شاعر |
کلام |
سلام یا حسینؑ 2019 |
---|
شاعرہ: نسرین سید صاحبہ |
پھر اشکوں کی فراوانی ہے اور شبیرؑ کا غم ہے ملال و مرثیہ خوانی ہے اور شبیرؑ کا غم ہے تصور میں ہے وہ تشنہ لبی، لب کیسے تر کر لوں؟ سبیلوں میں بھرا پانی ہے اور شبیرؑ کا غم ہے وہاں تپتا ہوا صحرا ، بھڑکتی آگ خیموں کی یہاں بس سوختہ جانی ہے اور شبیرؑ کا غم ہے گلابوں کی طرح لاشے کِھلے تھے دشت میں، دل نے ردائے سرخ اک تانی ہے اور شبیرؑ کا غم ہے رہے باقی یہ غم، جب تک نفس کے تار ہلتے ہیں ابھی سانسوں کی آسانی ہے اور شبیرؑ کا غم ہے وفورِ رنج سے سنبھلے بھی کیسے، خانہء دل کے دروں اک حشر سامانی ہے اور شبیرؑ کا غم ہے ہے بس میں اور کیا نسریںؔ، یہی گریہ، عزا داری یہی نوحہ ، رجز خوانی ہے اور شبیرؑ کا غم ہے |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں