سلام یا حسینؑ 2014 |
---|
شاعر : تبسم نواز وڑائچ صاحب |
شبِ غربت میں نئی رسمِ عزا جاری کی جلتے خیموں نے شہیدوں کی عزداری کی پرسہ دیتے تھے طمانچے کہیں رخساروں پر طوق و زنجیر نے بیمار کی دلداری کی سہمے بچوں کو دلاسے دئیے وحشت نے کہیں بیکسی نے وھاں بیواؤں کی غمخواری کی لا کے طیبہ سے محمد کے گلستانوں کو مولا شبیر نے صحرا میں شجر کاری کی میں تو اعجازِ سکینہ ھی کہوں گا اس کو مشک بھی ایک علامت ھے علمداری کی میرے اشکوں کو ملا اجرِ رسالت کا شرف بے ھنر پر یہ ترے غم نے ھنر کاری کی اشک و گریہ ، کبھی ماتم ، کبھی زنجیر زنی زندہ رھنے کی تگ و دو تو بہت ساری کی کوفہ و شام تھے یا کرب و بلا تھے فضہ تو نے زھرا کے گھرانے سے وفاداری کی قنبر و میثم و حر تھے یا بلال و بہلول درِ زھرا کے غلاموں نے بھی سرداری کی مدحِ ظالم سے تبسم کا قلم پاک رھا خو نہ آئی کبھی اس میں کسی درباری کی |
سلام یا حسینؑ 2015 |
---|
شاعر:جناب تبسم نواز وڑائچ صاحب |
کوئی بھی نہیں لشکر ِ شبیر ؑسے نکلا اک تیر تھا جو شہ رگِ بے شیر سے نکلا زہرا ؑکی دعائیں تھیں کہ حُر نار ِ سقر سے فردوس کی جانب بڑی توقیر سے نکلا کرتا ہے سر ِ نوکِ سنان کون تلاوت یہ زندہ چلن صرف مرے پیر سے نکلا پھر اُس کا ٹھکانہ لبِ دوزخ ہی ہوا طے جو پنجتن ِ پاکؑ کی جاگیر سے نکلا زہرا ؑ کا تقدّس لبِ زینب ؑسے عیاں تھا ھندہ کا اثر شمر ترے تیر سے نکلا میں أج بھی ہوں شام کے بازار کا قیدی اب تک نہیں بیمار کی زنجیر سے نکلا چھ ماہ کا بےشیر بڑی شان سے رن مین لڑنے کے لئے پیاس کی شمشیر سے نکلا کچلے ہوئے لاشے جو پڑے پیاروں کے دیکھے وا غربتا نوحہ لبِ ہمشیر سے نکلا معصوم سے بیعت کا تقاضا ہی غلط ہے مفہوم یہی أیہء تطہیر سے نکلا |
سلام یا حسینؑ 2016 |
---|
شاعر |
کلام |
سلام یا حسینؑ 2017 |
---|
شاعر |
کلام |
سلام یا حسینؑ 2018 |
---|
شاعر |
کلام |
سلام یا حسینؑ 2019 |
---|
شاعر |
کلام |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں