سلام یا حسینؑ 2014 |
---|
شاعر : جناب ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب |
یہاں سے دُور ، وہیں ، کربلا میں رہتا ہے ہنسوں بھی میں تو مرا دل عزا میں رہتا ہے وہ انتہا تو رگِ جاں میں جوش مارتی ہے مرا سخن تو کہیں ابتدا میں رہتا ہے بظاہر اُس کو گُزارا گیا فنا سے مگر وہ نام چشمہِ آبِ بقا میں رہتا ہے مثالِ خضر سدا دستگیرِ دل زدَگاں حسینؐ ساحلِ سیلِ بلا میں رہتا ہے ستارہ وار چمکتا ہے آسمانوں پر اور اُس کا عکس دلِ آشنا میں رہتا ہے نصیبِ اہلِ کدورت کہاں سُراغ اُس کا وہ صرف سینہِ اہلِ صفا میں رہتا ہے کبھی جھلکتا ہے صحرا میں روشنی کی طرح کبھی وہ لرزشِ بانگِ درا میں رہتا ہے کبھی سفر میں کبھی منزلوں میں اُس کی نمود کبھی طلب میں کبھی مدّعا میں رہتا ہے ہر ایک شخص کے عزمِ بقا میں ہے زندہ ہر اک ستم کی شکست و فنا میں رہتا ہے زمانا اس کی ابھی ابتدا کو چھو نہ سکا کسے خبر کہ وہ کس انتہا میں رہتا ہے مجھے تلاش میں جانا نہیں پڑا اُس کی وہ میرے ذہن کی آب و ہوا میں رہتا ہے |
سلام یا حسینؑ 2015 |
---|
شاعر |
کلام |
سلام یا حسینؑ 2016 |
---|
شاعر |
کلام |
سلام یا حسینؑ 2017 |
---|
شاعر |
کلام |
سلام یا حسینؑ 2018 |
---|
شاعر |
کلام |
سلام یا حسینؑ 2019 |
---|
شاعر |
کلام |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں