سلام یا حسینؑ 2014 |
---|
شاعر |
کلام |
سلام یا حسینؑ 2015 |
---|
شاعر : محترم کوثر علی صاحب |
ذکر ِ کربل میں جو کاغذ پہ قلم کھینچتے ہیں جسمِ مظلوم سے اک تیرِ ستم کھینچتے ہیں تشنہ بچّوں کے بِلکنے کی صدا آتی ہے کربلا جائیں تو ہم سانس بھی کم کھینچتے ہیں کتنے آنسو ہیں ترے پاس ؟ بتا ! آب ِ فرات !! ہم تو نسلوں سے شہنشاہ کا غم کھینچتے ہیں پانی پیتے ہیں تو پیتے ہوۓ رٗک جاتے ہیں پھر جو اک قطرہ بھی پیتے ہیں تو سَم کھینچتے ہیں روز کہتے ہیں کہ ڈٹ جائیں یزیدوں کے خلاف روز اک خواب سرِ دیدہؑ نم کھینچتے ہیں کس قدر جبر میں زندہ ہیں کہ ہم سوۓ حسین اک قدم جاتے ہیں اور ایک قدم کھینچتے ہیں غمِ شبّیر میں یوں دل کو لیے پھرتے ہیں تعزیہ جیسے عزادار بہم کھینچتے ہیں اہل ِ کعبہ تو گۓ شام کے زنداں کی طرف جانے کیوں لوگ ہمیں سوۓ حرم کھینچتے ہیں بٗغض کا کرنا ہو اندازہ جہاں پر کوثر نامِ شبّیر وہاں ہم ہمہ دم کھینچتے ہیں |
سلام یا حسینؑ 2016 |
---|
شاعر |
کلام |
سلام یا حسینؑ 2017 |
---|
شاعر |
کلام |
سلام یا حسینؑ 2018 |
---|
شاعر |
کلام |
سلام یا حسینؑ 2019 |
---|
شاعر : جناب علی کوثر صاحب |
دل سے جو بھی ہوا فدائے حسینؑ مل گئے اس کو نقشِ پائے حسینؑ دم بخود ہوگئی تھی فوجِ لعین جس گھڑی کربلا میں آئے حسینؑ اس کو کہتے ہیں صبرو استغنا ء تیر کھا کر بھی مسکرائے حسینؑ ظالموں کے ستم سہے لیکن لب پہ شکوہ کبھی نہ لائے حسینؑ خلعتِ ظلم تار تار ہوئی پر سلامت رہی قبائے حسینؑ مدتوں سے یہ آرزو ہے مری لوگ مجھ کو کہیں گدائے حسینؑ سرخ رو ہے حسینیت کا علم ہر صدا بن گئ صدائے حسینؑ یہ حقیقت ہے سارے عالم میں بن کے تاریخ جگمگائے حسینؑ جو عزادار ہیں علی کوثؔر ان سے راضی ہوا خدائے حسینؑ " |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں