سلام یا حسینؑ 2014 |
---|
شاعرہ : محترمہ تسنیم عابدی صاحبہ |
منتظر تیرے سدا عقدہ کُشا رکھتے ہیں دلِ زندہ کے لئے حق سے وِلا رکھتے ہیں گُھٹ کے مر جاتے ترا غم جو نہیں ہوتا نصیب سانس لینے کے لئے تازہ ہوا رکھتے ہیں لاشِ قاسم پہ یہ شبیر کی حالت دیکھی جسم کے ٹکڑوں کو گٹھری میں اٹھا رکھتے ہیں درِ خیمہ پہ کھڑے سوچ رہے ہیں سرور ماں نے گر پوچھا کہ آغوش میں کیا رکھتے ہیں وحشتِ دل نہ بڑھے عالمِ تنہائی میں اس لئے قبر میں ہم خاکِ شفا رکھتے ہیں فرشِ ماتم جو بچھاتے ہیں تو اس سے پہلے فاطمہ کے لئے آنکھوں کو بچھا رکھتے ہیں نوجواں سینے سے برچھی کو نکالا کیسے ہائے کیا دولتِ تسلیم و رضا رکھتے ہیں بس یہی اپنا ہے سرمایہ ہستی تسنیم درمیانِ نفسِ بیم و رجا رکھتے ہیں |
سلام یا حسینؑ 2015 |
---|
شاعرہ : محترمہ تسنیم عابدی صاحبہ |
نیزے پہ کیا تھا جو سفر یاد رہے گا
قراں سناتا ہوا سر یاد رہے گا
پردیس میں اک دن میں جو برباد ہوا تھا
زہرا ؑکا وہ اجڑا ہوا گھر یاد رہے گا
ہر زخمِ تمنا کو بھلا سکتی ہے لیکن
ماں کو علی اکبرؑ کا جگر یاد رہے گا
پیاسا رہا امت کی شفاعت کے لئے جو
وہ ساقی کوثر کا پسر یاد رہے گا
پانی کے لئے ہاتھوں کا کٹنا بھی گوارا
سقائ کا دنیا کو ہنر یاد رہے گا
اک سر تھا جو نیزے پہ ٹھہرتا ہی نہیں تھا
عباسؑ پہ کیسا تھا اثر یاد رہے گا
ماں بہنیں رسن بستہ کھلے سر تھیں خدایا
بازار سے عابدؑ کا گزر یاد رہے گا
|
سلام یا حسینؑ 2016 |
---|
شاعر |
کلام |
سلام یا حسینؑ 2017 |
---|
شاعر |
کلام |
سلام یا حسینؑ 2018 |
---|
شاعر |
کلام |
سلام یا حسینؑ 2019 |
---|
شاعرہ : محترمہ تسنیم عابدی صاحبہ |
اوجِ امکانِ بشر کا سلسلہ ہے کربلا عبدیت کی شانِ تسلیم و رضا ہے کربلا روح ہو بیمار تو خاکِ شفا ہے کربلا خالقِ اکبر کا زندہ معجزہ ہے کربلا غم گساری، دوست داری ، بیقراری کے لئے کربلا ہے ، کربلا ہے ، کربلا ہے کربلا عشق کی تاریخ سے آواز آتی ہے یہی سیکھنا چاہو تو تہذیب عزا ہے کربلا بانیانِ ظلم مٹ سکتا نہیں ذکرِ حسین ؑ جبر کے ماحول میں تازہ ہوا ہے کربلا گردشِ ایام سے محفوظ رکھنے کے لئے ہیں بہتر زخم اور دل کی دوا ہے کربلا زائرینِ روضہ شبیرؑہیں اس سوچ میں خلد ہے یا خلد کا اک راستہ ہے کربلا نوکِ نیزہ سے جہاں ہرجیت کا اعلان ہو ربِ کعبہ کی قسم وہ معرکہ ہے کربلا |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں