سلام یا حسینؑ 2014 |
---|
شاعر : جناب فہیم شناس صاحب |
زمانہ کرتا رہے ہم پہ اعتراض بہت
ہمیں تو ماتمِ شبیرؑ پہ ہے ناز بہت
بس اک اشارے پہ کوثر زمیں پہ آجاتا
وہ تین روز کے پیاسے تھے بے نیاز بہت
کچھ ایسا بھی تھا کہ زینب بہت اکیلی تھیں
اور اس پہ شام کے رستے بھی تھے دراز بہت
گلوئے خشک پہ جب حرملہ کا کھایا تیر
تبسمِ لبِ اصغر تھا دلنواز بہت
ہر اک نماز میں ہم نے دعا یہ مانگی شناس
غمِ حسینؑ سے مولا ہمیں نواز بہت
یہ حمد و نعت یہ نو حے یہ منقبت یہ سلام
ہے بخشوانے کو کافی یہی بیاض بہت |
سلام یا حسینؑ 2015 |
---|
شاعر : جناب فہیم شناس صاحب |
مرے لہومیں ازل سے رواں دواں ترا غم خدا کا شکر کہ ہے میرا سائباں ترا غم تمام راستے میرے لیے کشادہ ہوئے بسائے دل میں گیا ہوں جہاں جہاں ترا غم کہیں پہ لاشہءاکبرؑ، کہیں علی اصغرؑ کہیں جلا ہوا خیمہ، کہیں دھواں ترا غم ہر اک جہان سمٹتا چلاگیااس میں سمندروں سے زیادہ ہے بیکراں ترا غم اسی لیے تو لرزتا ہے تیرے نام سے جبر یزیدیت کے مٹاتا رہا نشاں ترا غم ہوکوئی جبر کا موسم کہ صبر کا عالم کہ میرے کام نہ آیا کہاں کہاں ترا غم |
سلام یا حسینؑ 2016 |
---|
شاعر |
کلام |
سلام یا حسینؑ 2017 |
---|
شاعر |
کلام |
سلام یا حسینؑ 2018 |
---|
شاعر |
کلام |
سلام یا حسینؑ 2019 |
---|
شاعر : جناب فہیم شناس کاظمی صاحب |
لہو میں، دل میں ازل سے مرے رہا ترا غم خدا کا شکر ہے مولا ، مجھے ملا ترا غم اسی کے دم سے گزرتی ہے زندگی آساں ہمیشہ رکھے سلامت مرا خدا ترا غم ہر ایک چیز زمانے میں ہے زوال پذیر مگر ازل سے ہے کیسا ہرا بھرا ترا غم مری بقا کا سبب صرف ہے ترا ماتم مری نجات کے ضامن تری ولا، تراغم مرے لیے تو ترا اسم، اسمِ اعظم ہے ہمیشہ دور رکھے مجھ سے ہر بلا، ترا غم ہمیشہ سینے پہ روشن نشانِ ماتم ہو ہمارے رُخ پہ دمکتا رہے سدا ترا غم گلی گلی سے صدا آئے یا حسینؑ، حسینؑ گلی گلی میں ہے مولائے کربلا،ترا غم ہوکوئی جبر کا موسم کہ صبر کا عالم مرا ہمیشہ ہی مشکل کشا رہا ترا غم یہ تیرا غم ہے کہ امرت ہے زندگی کے لیے مرے لیے تو ہر اک سانس ہے دعا ترا غم مری نمود،مری ہست و بود سب اِس سے ہے میری روح، مری جاں، مری بقا! ترا غم بہت قریب سے دیکھا ہے کربلا ہم نے کہ ہم مناتے نہیں ہیں رواجیہ ترا غم وہ کربلا ہو، نجف ہو کہ سامرا ہو شناسؔ ہر اک مقام پہ ماتم، ہر ایک جا ترا غم |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں