سلام یا حسینؑ 2014 |
---|
شاعر :سید شاہ میر رضا زیدی |
لحد میں بھی رٌلائے جا رہے ہیں ستم زہراؑ پہ ڈھائے جا رہے ہیں جہاں نیزے چلائے جا رہے ہیں وہیں سینے سجائے جا رہے ہیں علیؑ کی بیٹیاں خیموں میں ہیں اور لعیں خیمے جلائے جا رہے ہیں جنہیں سورج کبھی نہ دیکھ پایا سرِ بازار لائے جا رہے ہیں یہیں سے جاۓ گی زہراؑ کی بیٹی تبھی رستے سجائے جا رہے ہیں یہ اک گٹھڑی میں کیا لائے ہیں سرور۴ جسے قاسمؑ بلائے جا رہے ہیں سرِ شبیرؑ اور زینبؑ کی چادر سرِ نیزہ اٹھائے جا رہے ہیں تماشائی سبھی رستے میں ہیں اور حرم چہرے چھپائے جا رہے ہیں جو کانٹے راہِ حیدرؑ سے بچے تھے وہ کربل میں بچھائے جا رہے ہیں جسے شبّیرؑ نے پالا تھا اسکو تمانچے بھی لگائے جا رہے ہیں جہاں بوسہ محمدﷺ نے دیا تھا وہیں خنجر چلائے جا رہے ہیں علیؑ کے گھر کے بچّے جان دے کر خدا کا دیں بچائے جا رہے ہیں جو کُل انسانیت کے پیشوا ہیں وہ پیشی پر بلائے جا رہے ہیں کماں کی ،تیر کی آنکھوں میں آنسو گلے، کہ مسکرائے جا رہے ہیں لعیں ،غازیؑ کو تڑپانے کی خاطر سکینہؑ کو رلائے جا رہے ہیں |
سلام یا حسینؑ 2015 |
---|
شاعر |
کلام |
سلام یا حسینؑ 2016 |
---|
شاعر |
کلام |
سلام یا حسینؑ 2017 |
---|
شاعر |
کلام |
سلام یا حسینؑ 2018 |
---|
شاعر |
کلام |
سلام یا حسینؑ 2019 |
---|
شاعر |
کلام |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں