سلام یا حسینؑ 2014 |
---|
شاعر |
کلام |
سلام یا حسینؑ 2015 |
---|
شاعر :جناب شکیل جاذب صاحب |
بس کُشتگانِ راہِ ابد گیر کر گئے دشتِ بلا کی خاک کو اکسیر کر گئے صدیوں سے جسکی ہمّتِ انساں تھی منتظر وہ کام حق کی راہ میں شبّیر کر گئے اک خیمہِ جمال کے بجھتے ہوئے چراغ راہِ وفا میں روشنی تحریر کر گئے عبّاس اپنے بازو کٹا کر لبِ فُرات باطل کے دستِ ظلم کو زنجیر کر گئے جو تیر کربلا میں چلے تھے حُسین پر دراصل مُصطفےٰ (ص) کا جگر چیر کر گئے آنکھوں میں اشک چاک گریباں سروں پہ خاک کرب و بلا کے تذکرے دلگیر کر گئے جاذب، حُسین معنیِ ذبحِ عظیم ہیں جو خوابِ ابراہیمؑ کو تعبیر کر گئے |
سلام یا حسینؑ 2016 |
---|
شاعر |
کلام |
سلام یا حسینؑ 2017 |
---|
شاعر |
کلام |
سلام یا حسینؑ 2018 |
---|
شاعر |
کلام |
سلام یا حسینؑ 2019 |
---|
شاعر : جناب شکیل جاذب صاحب |
جب کھینچ لی حرمل نے ادھر اپنی کماں اور ہونٹوں پہ تبسم ہوا اصغرؑ کے جواں اور تا حشر یہ دریائے عزاء بہتا رہے گا ہر آن ترے نام پہ ہیں اشک رواں اور پیوست کفِ شاہ سے اصغرؑ کا گلا ہے باقی ہیں کفِ ظلم میں کیا تیغ و سناں اور بطحا سے نجف تک ہیں رواں اشکوں کی لہریں دی کرب و بلا میں علی اکبر ؑنے اذاں اور بعد اُسکے بھلا خاک نہ کیوں جینے پہ ڈالیں اکبرؑ سا کوئی ہو گا زمانے میں جواں اور ؟ جب آنکھیں برستی ہیں سرِ شامِ غریباں بھر جاتا ہے جلتے ہوئے خیموں کا دھواں اور بھر جائیں گے یہ طوق و سلاسل سے لگے زخم لیکن دلِ سجّادؑ پہ باقی ہیں نشاں اور ! جاذؔب مرے مولاؑ نے اُٹھایا جسے سر پر امت سے کہاں اُٹھتا تھا یہ بارِ گراں اور |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں