سلام یا حسینؑ 2014 |
---|
شاعرہ : محترمہ شاہدہ حسن صاحبہ |
کسی کی موت،کسی کی بقا فرات کے پاس ہوا تھا دہر میں اک فیصلہ ،فرات کے پاس مسافرانِ وفا ڈھونڈتے ہیں اُن کے نشاں کبھی رکا تھا کوئی قافلہ فرات کے پاس بڑھا تھا کوئی اگر حدّ ِ ظُلم سے آگے ہوئی تھی صبر کی بھی انتہا،فرات کے پاس غضب کی پیاس میں طے کرلیا بہتّر نے ثبات و شُکر کا ہر مرحلہ ،فرات کے پاس تمام باغِ حُسینی کے پھول خاک پہ تھے کچھ ایسی تیز چلی تھی ہوا،فرات کے پاس بغیرِ آب نہ جائوں پلٹ کے خیمے میں کسی نے کی تھی تڑپ کر دعا فرات کے پاس عجیب طرح سے سیراب ہوگئے اصغر کماں سے تیر ہوئے جب جدا،فرات کے پاس بلا کی دھوپ میں اک سایہِ علم ہے عطا سُنی گئی مری آہِ رسا ،فرات کے پاس سلام اُس کی ضعیفی پہ جس کے اشکوں نے جوابِ نامہ ئ صغرا لکھا،فرات کے پاس نیا زمانہ نئی آہٹوں سے ڈرنے لگا بلارہی ہے نئی کربلا فرات کے پاس |
سلام یا حسینؑ 2015 |
---|
شاعرہ : محترمہ شاہدہ حسن صاحبہ |
کسی کی موت ،کسی کی بقا فرات کے پاس ہوا تھا دہر میں اک فیصلہ ،فرات کے پاس بڑھا تھا کوئی اگر حّدِ ظلم سے آگے ہوئی تھی صبر کی بھی انتہافرات کے پاس غضب کی پیاس میں طے کر لیا بہتّر نے ثبات و شکر کا ہر مرحلہ فرات کے پاس مسافرانِ وفا ڈھونڈتے ہیں اُن کے نشاں کبھی رُکا تھا کوئی قافلہ فرات کے پاس رکھا تھا آخری سجدے میں جب حسین نےسر سمٹ گئے تھے یہ ارض و سما فرات کے پاس بہا رہا ہے وہ دریا بھی آج تک آنسو سنا رہی ہے ہوا مرثیہ فرات کے پاس کُھلے سروں کی کہانی سنانے آتی ہیں ہوائیں پھِرتی ہیں وحشت زدہ فرات کے پاس عجیب طرح سے سیراب ہوگئے اصغر کماں سے تیر ہوئے جب جدا فرات کے پاس سلام اُس کی ضعیفی پہ جس کے اشکوں نے جوابِ نامہّ صغرا لکھا فرات کے پاس حسین آپ کے روضے کی رونقوں کو سلا م مگر وہ گھر کے جو ویراں ہوا فرات کے پاس نیا زمانہ نئے معرکوں سے ڈرنے لگا بُلا رہی ہے نئی کربلا فرات کے پاس دعا کو ہاتھ اُٹھائیں بنامِ یادِ حسین چلو بچھائیں یہ فرشِ عزا،فرات کے پاس |
سلام یا حسینؑ 2016 |
---|
شاعر |
کلام |
سلام یا حسینؑ 2017 |
---|
شاعر |
کلام |
سلام یا حسینؑ 2018 |
---|
شاعر |
کلام |
سلام یا حسینؑ 2019 |
---|
شاعر |
کلام |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں