سلام یا حسینؑ 2014 |
---|
شاعر : جناب اسد علی اسد |
یہ بادَلوں کو ہوا مرثیہ سُنا رہی ہے اُداس دشت ہے پیاسوں کی یاد آ رہی ہے نظر میں معرکہءِ کم سُخن، دکھا رہی ہے کمان، تیر کی روداد خود بتا رہی ہے طوافِ خیمہءِ صبر و وفا کے بعد ہَوا جبیں چراغ کی چوکھٹ پہ بھی جھکا رہی ہے سمٹ کے آ گیا صحرا کہیں پہ قدموں میں سمیٹ کر کہیں دریا کو، مشک لا رہی ہے فُرات بازو بُریدہ سے جُھک کے کہنے لگی ہر اک جری سے الگ ہی تری وغا رہی ہے علم سے خوفزدہ تھی سپاہِ بَد جس کے اُسی کے سَر کو علم کر کے خود اُٹھا رہی ہے اِدھر جوان ۔۔ جگر میں لہو بڑھا رہا ہے اُدھر سے وحشتِ دل برچھیاں بنا رہی ہے وہ دیکھ کس طرح پیاسا ہے تیغ زن رَن میں وہ دبدبہ ہے کہ خود کو اَجل بچا رہی ہے ہر ایک موجِ فنا ہے کہ سَر پٹخ رہی ہے اور ایک پیاسِ بقا ہے کہ مُسکرا رہی ہے بھنور میں شام کے ڈوبا نہ یوں سفینہءِ لا کہ اُس کا بادباں بن کر کوئی ردا رہی ہے اُبھرتے دیکھے ہیں چھالے زمیں کے سینے پر کہ شاہ زادی یہاں پر برہنہ پا رہی ہے سبیلِ گریہ کی لذت سے آشنا ہے یہ پیاس یہ وہ سبیل ہے جو تشنگی بڑھا رہی ہے فلک سے دیکھا وَحی نے اسد تو چیخ پڑی سناں پہ صبر کی آیت اُٹھائی جا رہی ہے |
سلام یا حسینؑ 2015 |
---|
شاعر:جناب اسد علی اسدصاحب |
جو آگ سے کاندھوں پہ اُٹھا لائی ہے زینبؑ عابدؑ نہیں ، توحید بچا لائی ہے زینبؑ ۔۔۔ شبیرؑ اگر لائے ہیں قربانی ءِ اکبرؑ تو دین بچانے کو ردا لائی ہے زینبؑ ۔۔۔ شبیرؑ کے لاشے سے سکینہؑ کی یتیمی روتی ہوئی سینے سے لگا لائی ہے زینبؑ ۔۔۔ دیکھے جو نظر بھر کے تو مر جائیں یزیدی غازیؑ نہیں ، زہراؑ کی دعا لائی ہے زینبؑ ۔۔۔ اِس دشت میں کب شام اسیروں پہ کٹھن ہے اِ س شام سے ہی صبحِ بقا لائی ہے زینبؑ ۔۔۔ شمشیرِ خطابت سے گلے کاٹ رہی ہے انداز لڑائی کے جُدا لائی ہے زینبؑ ۔۔۔ کیا ہے جسے روتی ہے کلیجے سے لگا کر سجادؑ سے پوچھے کوئی کیا لائی ہے زینبؑ ۔۔۔ اے شمرِ لعیں دیکھ ترے ظُلم و ستم سے کس طور سکینہؑ کو چُھڑا لائی ہے زینب ؑ ۔۔۔ دشتِ بلا سے عزمِ حسینیؑ لیے اسد دربار میں باطل کی قضا لائی ہے زینبؑ ۔۔۔ |
سلام یا حسینؑ 2016 |
---|
شاعر |
کلام |
سلام یا حسینؑ 2017 |
---|
شاعر |
کلام |
سلام یا حسینؑ 2018 |
---|
شاعر |
کلام |
سلام یا حسینؑ 2019 |
---|
شاعر |
کلام |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں