2019




66

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعر : جناب سید طاہر رضا صاحب

ایک نوحہ لکھیں بنام حسینؑ
با ادب اور بہ احترام حسینؑ

منتظم ایسا اب کہاں ہو گا
کربلا اور انتظام حسینؑ 

شاہؑ سا محتشم کہاں پاتے
سرنگوں پیش احتشام حسینؑ

جس نے بخشی حیات نو دیں کو
تھا وہ سجدہ بھی التزام حسینؑ

اور پھر وہ کبھی نہیں لوٹا
حر کو خوش آیا انضمام حسینؑ

کیسے قربان کر دیا کنبہ
قتل گاہ اور اھتمام حسینؑ

حرف ہوں سوزِغم سے خون آلود
ہم بھی لکھیں کبھی سلام حسینؑ


67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


1

سلام یا حسینؑ 2019 
 شاعر: جناب راشد امام صاحب
خون کا گریہ کروں، صبر نہ آئے مولاؑ
نور کے جسم، سرِ نیزہ ہیں ہائے مولاؑ

پاک آیات چھدی جاتی ہیں ٹاپوں کے تلے
فرش تا عرش، ابھرتی ہے ندائے مولاؑ

حلقِ اصغرؑ سے تجلی کا نمایاں ہونا
سرخی مائل ہوئی جاتی ہے قبائے مولاؑ

اک بگولے میں بدل جاؤں امر ہوتے ہی
اتنی رفتارسے پہنچوں، جو بلائے مولاؑ

آنکھ میں خون اترتا ہے لرزتا ہے بدن
تیرا بیمار کبھی یاد جو آئے مولاؑ

ظرف والوں کے نصیبوں میں یہ غم آتا ہے
تجھ کو غم ہے تو سمجھ خاص عطائے مولاؑ

ایسے سر سبز چراغوں نے نمو کی راشؔد
اب معلی ہے، جو تھی کرب و بلائے مولاؑ


2


سلام یا حسینؑ 2019 
 شاعر: جناب افضل خان صاحب

ملول ایسا ہوا منظرِ قضا سے میں
کہ روتا پیٹتا نکلا ہوں کربلا سے میں

تو اہلِ بیتؑ کی نصرت کو کیوں نہیں پہنچا؟
سوال مجھ سے کرے گا خدا، خدا سے میں

میں رو پڑا تو مجھے یاد آیا صبرِ حُسینؑ
سو اپنے آپ کو دینے لگا دلاسے میں

دھنسا نہ ریت میں دشمن نہ غرقِ آب ہوا
خفا فرات سے، ناراض ہوں ہوا سے میں

کہا یہ حُرؑ نے ریاضِ بہشت میں سب سے
مجھے بھی دیکھیے کیا ہو گیا ہوں کیا سے میں

یہ سوچ کر غمِ تشنہ لباں چنا افضؔل
اٹھا نہ پاؤں گا صدمے ذرا ذرا سے میں


3

سلام یا حسینؑ 2019 
 شاعر: جناب سید محمد نورالحسن نور نوابی عزیزی

ایک دو پر بس نہیں ساری خدائی کے لیے
ہے مرا شبیرؑ کافی رہنمائی کے لیے

جب یزیدی قوتوں کے خار و خس بڑھنے لگے
تو حسینؑ ابن علیؑ آئے صفائی کے لیے

کیسے بالا دستیِ باطل اسے تسلیم ہو
کربلا بھیجا گیا جو حق نمائی کے لیے

جانے کیسے لوگ ہیں مجبور کہتے ہیں اسے
جس کا گھر مشہور ہے مشکل کشائی کے لیے

دیکھنا ہے اختیارِ ابن زہراؑ گر تجھے
دل سے ان کو دے صدا حاجت روائی کے لیے

کاشفِ سرِ حقیقت ہیں حسینؑ ابن علیؑ
کھول دل کی آنکھ ان کی آشنائی کے لیے

اے غمِ شبیرؑ کرلے مستقل اپنا قیام
دل مرا راضی نہیں تجھ سے جدائی کے لیے

وہ ترا آئینۂ کردار ہے میرے حسینؑ
خنجر سفاک ہے جو ہر برائی کے لیے

کیا کہو گے اے سیہ بختو! خدا پوچھے گا جب
کیا نبی کا گھر ہی تھا زور آزمائی کے لیے؟

ہے حسینؑ ابن علیؑ ایثار و قربانی کا نام
اور ہیں کوفی استعارہ بے وفائی کے لیے

کیوں نہ صدقے جائے اس پر امت شاہِ اممؑ
ہو گیا قربان جو اس کی بھلائی کے لیے

جس نے گلشن کر دیا ہے دشت وحشت ناک کو
کربلا شاہد ہے اس کی خوش نوائی کے لیے

نورؔ کے پیکر میں بھر دے یا خدا رنگِ حسینؑ
سیدی نواب شیخِ بوالعلائی کے لیے


4

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعرہ: نسرین سید صاحبہ
پھر اشکوں کی فراوانی ہے اور شبیرؑ کا غم ہے
ملال و مرثیہ خوانی ہے اور شبیرؑ کا غم ہے

تصور میں ہے وہ تشنہ لبی، لب کیسے تر کر لوں؟
سبیلوں میں بھرا پانی ہے اور شبیرؑ کا غم ہے

وہاں تپتا ہوا صحرا ، بھڑکتی آگ خیموں کی
یہاں بس سوختہ جانی ہے اور شبیرؑ کا غم ہے

گلابوں کی طرح لاشے کِھلے تھے دشت میں، دل نے
ردائے سرخ اک تانی ہے اور شبیرؑ کا غم ہے

رہے باقی یہ غم، جب تک نفس کے تار ہلتے ہیں
ابھی سانسوں کی آسانی ہے اور شبیرؑ کا غم ہے

وفورِ رنج سے سنبھلے بھی کیسے، خانہء دل کے
دروں اک حشر سامانی ہے اور شبیرؑ کا غم ہے

ہے بس میں اور کیا نسریںؔ، یہی گریہ، عزا داری
یہی نوحہ ، رجز خوانی ہے اور شبیرؑ کا غم ہے

5

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعر :جناب مصدق لاکھانی صاحب

جگر کے خون سے اپنے قلم کو سرخرو رکھنا
اسی کو کہتے ہیں فنِ سخن کی آبرو رکھنا

نمازِ درد ہے تشنہ لبوں کی یہ عزاداری
اِن آنکھوں کو ہمیشہ آنسوؤں سے با وضو رکھنا

اگر رہنا ہے ہم کو آج کے بے رحم کوفہ میں
تو لازم ہے کسی خوابیدہ حُر کی جستجو رکھنا

سبیلِ کربلا سے پی رہا ہوں عشق کا کوثر
سن اے ساقی مرے آگے نہ اب جام و سبو رکھنا

وہ جس کے پاؤں کے تلووں کے نیچے میری جنت ہے
اسی ماں نے کہا تھا کربلا کی آرزو رکھنا

بہتر (72) لوگ بھی لشکر کے لشکر کاٹ سکتے ہیں
جب آتا ہو گلوئے تیغ پر تیغ گلو رکھنا

نشاں ماتم کے، پھولوں کی طرح ہر پل مہکتے ہیں
ہمیں آتا ہے سینے پر بہار رنگ و بو رکھنا

ازل کی نعمتوں سے آنسوؤں کی یہ صدا آئی
کوئی رکھے نہ رکھے اے مصدؔق، ہم کو تو رکھنا


6

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعرہ : محترمہ پروین حیدر صاحبہ 

دے دیں کلاہ ِحرف قبائے سخن کے ساتھ
ہے ربط اس دعا کا در ِپنجتنؑ کے ساتھ

یارب میں ان کے عشق کو منظوم کر سکو ں
ہو ذکر کر بلا کا کتابِ ِسخن کے ساتھ

جس کے لہو سے عشق کا مقتل ہے سرخرو
وہ تھا فرازِ دار پہ اک بانکپن کے ساتھ

دستار ِجبر کاٹ دی پھر تیغِ صلح سے
حلم ِمحمدی (ص) رہا حلم ِحسنؑ کے ساتھ

کب لا سکا اجل کا فسوں ان کو دام میں
آئے مسافران ِمصیبت کفن کے ساتھ

ہمراہ کائنات کی وسعت کو لے چلا
وہ اک غریب ہجرت و ترکِ وطن کے ساتھ

کاری تھی ضربِ شہ ؑسر ِپندارِجبر پر
توڑا حصارِظلم کو بیکس بہن کے ساتھ

کیسے کروں میں کربِِ دل ِسیدہ ؑبیاں
حسرت بدوش ماں رہی اک خستہ تن کے ساتھ


7

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعر : جناب ابوالحسن خاور صاحب

آج یوں رونا رلانا ہے کہ ہائے ہائے
میں نے قصہ وہ سنانا ہے کہ ہائے ہائے

اس میں اک تیر بہت دور سے مارا گیا ہے
اور نشانہ وہ نشانہ ہے کہ ہائے ہائے

اس سے پہلے تو نہ آئی تھی صدا زینبؑ کی
پر جو اکبرؑ کا اٹھانا ہے کہ ہائے ہائے

سر ذرا نیزے پہ آنے دو کہ اس قاری نے
ایسا قرآن سنانا ہے کہ ہائے ہائے


8


سلام یا حسینؑ 2019 
شاعرہ : محترمہ پروین سلطانہ صباؔ صاحبہ 

بے کفن کرب و بلا میں جس کا لاشہ رہ گیا
حشر تک چلنے کو بس اُس کا ہی سکّہ رہ گیا

چومے غازیؑ کے قدم پر لب نہ چُھو پایا فرات
اوک میں عباسؑ کی ، دریا تڑپتا رہ گیا

بھانجے، بھائی، بھتیجے، دوست اور بیٹے دئیے
ساربانی کو فقط بیمار بیٹا رہ گیا

جب ملا ششماہِ اصغرؑسے تبّسم میں جواب
حرملہ بھی ، تیر بھی ، مونہہ اپنا تکتا رہ گیا

جتنے پیاسے تھے سبھی جامِ شہادت پی گئے
شوقِ لب بوسی میں وہ پانی ہی پیاسا رہ گیا


9

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعر : جناب محمد مختار علی صاحب


دل سے جیسے کوئی دلگیر سخن کرتا ہے
ہم سے دائم غمِ شبّیرؑ سخن کرتا ہے

وہی عُشاق ہی مقتل کی طرف جاتے ہیں
جن سے آوازہء شمشیر سخن کرتا ہے

سر ہے نیزے پہ مگر لب پہ ہیں جاری آیات
کس طرح کاتبِ تقدیر سخن کرتا ہے

دل سے مانگا ہے حرم میں کبھی ہونٹوں سے نہیں
خامشی کو بھی وہ تعبیر، سخن کرتا ہے

ہمہ تن گوش ہیں مجلس میں انیؔس اور دبیؔر
مدحِ شبیرؑ میں اب میؔر  سخن کرتا ہے

غم میں گویائی کا یارا ہے کسے، پر مختاؔر
دل میں اترا ہے جو اک تیر، سخن کرتا ہے

10

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعر : جناب کرامت غوری صاحب

شرف ِ بشر اور عظمت ِ آدم ایک حُسینؑ کی ذات میں ہے
کیا ید ِ بیضاٗ کیا دم ِ عیسیٰؑ سب شبیرؑ کے ہات میں ہے

کاخِ نخوت کانپ رہے ہیں ، ایوانوں میں لرزہ ہے
ہیبت حیدرؑ کا جلوہ ہے ، جو مولاؑ کی بات میں ہے

آوٗ اہلِ بیتؑ کے رستے گر منظور شفاعت ہو
یاد رہے نذرانہ سَر کا رستے کی سوغات میں ہے

نام ِحُسینؑ تو تابندہ ہے ، نامِ یزید نہیں ملتا
دین کا زندہ رہنا ہی تو مضمر ظلم کی کات میں ہے

جب بھی یزید اُٹھے گا کوئی سَر کچلے گا اس کا حُسینؑ
ظلم کے ہرکارو مت بھولو میرا حسینؑ بھی گھات میں ہے

بُعد جو حق و باطل میں ہے وہ تو سب پر ظاہر ہے
فاصلہ دونوں میں اتنا ہے جتنا دن اور رات میں ہے

ایک کرامؔت کا رشتہ ہے میرے رسولؐ سے تا شبیّر
یعنی سلام کی رفعت ویسی ،جیسی فضیلت نعت میں ہے


11

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعر : جناب حسن عابد ی صاحب

ہر اِک ذی روح کو آب و ہوا جیسے مقدم ہے
وہی شیعانِ حیدرؑ کے لیے ماہِ محرم ہے

برس کر ابرِ رحمت پاک کر دے جب زمانے کو
سمجھ لو گھِر کے آنے کو عزاداری کا موسم ہے

بہ فیضِ کربلا اب کوئی بھی پیاسا نہیں ہوگا
سبیلیں سج گئیں چاروں طرف جل تھل کا عالم ہے

ہوا میں جھوم کر لہرائے سبزہ جب پھریرے کا
تو آگے بڑھ کے استقبال کر غازیؑ کا پرچم ہے

مہکتے ہیں در و دیوار گلہائے مودَت سے
عزا خانہ مرا باغِ جناں سےکس طرح کم ہے

بچھی ہے چاندنی اور چاندنی پر پھول سے چہرے
گلِ زہراؑ کی محفل گاہ شعلہ گاہِ شبنم ہے

عزاخانوں میں پھر سے نوحہ خوانی کی صدا گونجی
دیارِ پنجتنؑ میں ہر طرف مجلس ہے ماتم ہے

بہتر (72) زخم جو ہم کو لگائے ہیں زمانے نے
یہ زنجیروں کا ماتم بس انہی زخموں کا مرہم ہے

علیؑ پردے کے پیچھے تھے اگر تو اس میں حیرت کیوں
وہی جاتا ہے پردے کے ادھر جو گھر کا محرم ہے

صدائے استغاثہ آئی جب تو ہم نہیں پہونچے
مجھے مہدی اگر غم ہے تو بس اس بات کا غم ہے


12

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعرہ : محترمہ ناز بٹ صاحبہ

ہُوئی ہے حق کی آگہی حُسینؑ سے
چلی ہے رسم ِ بندگی حُسینؑ سے

قدم قدم پہ ہیں بلا کی ظلمتیں
ہے تِیرگی میں روشنی حُسینؑ سے

یزیدیت جمود کا نشان ہے
رواں دواں ہے زندگی حُسینؑ سے

لُٹا دیا رہ ِ خُدا میں قافلہ
نہیں کوئی بڑا سخی حُسینؑ سے

فنا کا راستہ بقا میں ڈھل گیا
ہُوا ہے دین دائمی حُسینؑ سے

نہیں ہے ناؔز کچھ بھی پاس حشر میں
بجُز یہی کہ لَو لگی حُسینؑ سے


13

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعر : جناب مقبول زیدی صاحب

شفا ہے جب سے حسینؑ کا غم
سوا ہے جب سے حسینؑ کا غم

کھلے ہیں انساں پہ بابِ عرفاں
کھلا ہے جب سے حسینؑ کا غم

کئیے ہیں سب رنج دور خود سے
کیا ہے جب سے حسینؑ کا غم

دئیے ہیں رب نے رموزِ بخشش
دیا ہے جب سے حسینؑ کا غم

ہر ایک غم سے نجات پائی
ملا ہے جب سے حسینؑ کا غم

بپا ہے تا حشر. ایک محشر
بپا ہے جب سے حسینؑ کا غم

لکھاری مقبوؔل ہو گئے ہیں
لکھا ہے جب سے حسینؑ کا غم

14

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعر : جناب شمشیر حیدر صاحب

تشنہ لبوں کی تشنہ دہانی کے ذکر پر
آنکھوں میں پانی آ گیا، پانی کے ذکر پر

جس دل میں کربلا ومدینہ کی یاد ہو
روتا وہی ہے نقل مکانی کے ذکر پر

ممکن نہیں کہ آنکھ کو رونے سے روک لوں
ہمشکلِ مصطفیٰ ؐ  کی جوانی کے ذکر پر

قاتل نہیں تو وہ کسی قاتل کے ساتھ ہے
جو معترض ہے غم کی کہانی کے ذکر پر

پانی کی بوند بوند ہے شرمندہ آج تک
موجِ فرات تیری روانی کے ذکر پر

بے ساختہ زبان پہ شمشیؔر آ گیا
نامِ انیس ، مرثیہ خوانی کے ذکر پر

15

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعر : جناب نوید عباس سیمان صاحب 

حق نے دی ہم کو حرا کی روشنی
اور بخشی کربلا کی روشنی

عصر سے پہلے اندھیرا تھا بہت
پھر ہوئی صبر و رضا کی روشنی

میری پیشانی سے بھی پھوٹے کبھی
اے خدا! خاک شفا کی روشنی

سب سے اونچا ہے علم عباسؑ کا
سب سے بڑھ کر ہے وفا کی روشنی

غم دیا کس نے مجھے شبیرؑ کا
یہ مجھے کس نے عطا کی روشنی

راستہ اسلام کا ہے دوستو
یا ہے ان کے نقش پا کی روشنی

16

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعرہ: محترمہ فرح رضوی

چمکا نگینِ درد ،بدن پاک ہو گیا
اشکِ عزاء ستارہء افلاک ہو گیا

سُنکر وہ استغاثہء دلبندّ ِ مصطفےٰؐ
قبرِ رسولؐ کانپی ،کفن چاک ہوگیا

اک دشتِ کربلا کو معلّیٰ کی ہے سند
باطل کا نام جیسے خس و خاک ہو گیا

بالیدگیء فکر کی تجسیم ہو گئی
کربٙل کُھلی ہے جس پہ وہ بے باک ہو گیا

بازو کَٹے پہ شیر کی ہمت جُٹی رہی
مشکیزہ چِھد گیا تو جگر چاک ہو گیا

مہکا دیا ہے دہنِ سُخن اک سلام نے
اپنا قلم بمثلہِ مسواک ہوگیا

رونق فُزُوں ہے دشت میں خیموں کی کہکشاں
مٹّی کو آب و تاب سے ادراک ہوگیا

17

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعر : جناب احمد شہریار صاحب

میں جانتا تھا مری خاک ہے زمیں کے لیے
لہو سنبھال کے رکھنا پڑا کہیں کے لیے

کہو کہ موت کی تلخی حرام ہے ان پر
یہ چند لوگ جو آئے ہیں انگبیں کے لیے

تجھے خبر نہیں انکار کا عظیم مقام
سجائی جاتی ہے کرب و بلا ’’نہیں‘‘ کے لیے

ہے لشکر ایک طرف اور بہتر ایک طرف
یہ اہتمام ضروری تھا کفر و دیں کے لیے

وہی فرشتے بتائیں گے کربلا کی کشش
جو عرش چھوڑ کے آتے ہیں اس زمیں کے لیے

اور اتفاق سے خنجر بہت ضروری تھا
مرے گلے کے لیے، تیری آستیں کے لیے

میں حرؑ تھا، جاں سے گیا اور حسینؑ تک پہنچا
مجھے گماں سے گزرنا پڑا یقیں کے لیے


18

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعر : جناب سیَد نجم الحسن نجمؔی

پہنچی عجیب نہج پہ اصغرؑ کی پیاس ہے
دریا کہاں بجھائے سمندر کی پیاس ہے

دریا سے بار بار یہ موجوں کی ہے صدا
اب تک حضورِ شافعِ محشرؑ کی پیاس ہے

کوثر کا جام اوجِ ثریا پہ جا ملا
حُرؑ کہہ رہے ہیں دیکھ مقدر کی پیاس ہے

پھر سے صدائے بیعتِ فاسق بلند ہے
پھر دینِ مصطفیٰٰ ؑ کو بَہَتر کی پیاس ہے

نجمؔی ملے گا جامِ ولایت حسینؑ سے
صدیوں سے عشقِ حیدرِ صفدرؑکی پیاس ہے


19


سلام یا حسینؑ 2019 
شاعرہ : محترمہ فرح نقوی صاحبہ

پہلے کی طرح اب بھی
نيا سال۔۔۔۔۔۔۔۔
بغير آواز کے
چُپکے سے
دھيرے سے
ميرے در پہ دستک دے رہا ھے
کُچھ کہ رہا ھے
نويد نئ يہ سُنا رہا ھے
کہ گُناہ گاروں سے کہ دو
خطا کاروں سے کہ دو
اُن کی بخشيش کا سامان کرنے
ہدايت کو پھر۔۔۔عام کرنے
اک کاروانِ حق آ رہا ھے
وہ قافلہ جو رواں دواں تھا
کئ مہينوں سے۔۔۔۔۔۔۔
وہ آج منزل پہ آ رہا ھے
کہاں۔۔۔۔۔۔۔يہ ارضِ تپ دشتِ پُرخار
اور کہاں
وہ نُور کے حصار
عظمتوں کے ہالے
بلنديوں کے مينار ۔۔۔وہ گرد و غُبار
اور وہ تھکے ہُوے مُسافر
بزمِ انسانيت کا سلام اُن پر
عشق ميں ڈُوبے ہوۓ ۔۔۔۔۔ بے سہاروں کا
سلام اُن پر۔۔
عقيدتوں کے تمام قائدے ہوں جِن پر نثار
سلام اُن پر۔۔
کہ جِن کے آنے سے ٹُوٹے دِلوں کو
قرار آ رہا ھے۔۔۔۔۔
ذکر سے جِن کے ذہنوں ميں انقلاب
آ رہاھے۔۔۔۔۔۔
نيا سال کُچھ کہ رہا ھے
بغير آواز کے
خاموش آواز سے
مُردہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ضمير سب کے جگا رہا ھے


20

سلام یا حسینؑ 2019 
جناب شاہد جعفر(مرحوم)۔

حرؑ کا نصیب ایسے سنوارا حسینؑ نے
خوش بختیوں کا میر بنایا حسینؑ نے

ہیرا کچھ ایسے ڈھب سے تراشا حسینؑ نے
حرؑ کو اک استعارہ بنایا حسینؑ نے

پہلے تو کربلا کو بسایا بصد نیاز
پھر سب کے دل میں خود کو بسایا حسینؑ نے

چہرہ چھپائے پھرتی ہے سب سے یزیدیت
بیعت کو وہ سوال بنایا حسینؑ نے

اصحاب ہو گئے شبِ عاشور سرخرو
روشن کیا ہر ایک کا چہرہ حسینؑ نے

تو نے جو سازشوں سے بنایا امیرِ شام
وہ بت ملوکیت کا گرایا حسینؑ نے

روئے زمیں پہ عرش کو بھی رشک آ گیا
کچھ ایسے کربلا کو سجایا حسینؑ نے

روزِ الست اپنے لیئے کر لیا پسند
تپتی زمیں پہ آخری سجدہ حسینؑ نے

سکرات ہو کہ قبر ہو ، برزخ ہو یا کہ حشر
شاہدؔ کہاں کہاں نہ بچایا حسینؑ نے


21

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعر: جناب سید کامی شاہ صاحب

دائم نوا حسینؑ ہے، از ربِ ذوالجلال
مولا مرا حسینؑ ہے، از ربِ ذوالجلال

ہاتھوں میں جو عَلم ہے نشانِ احد ہے یہ
ہونٹوں پہ یا حسینؑ ہے، از ربِ ذوالجلال

باطل پرست شب کے تصور پہ آج بھی
چھایا ہُوا حسینؑ ہے، از ربِ ذوالجلال

ماتھے پہ اپنے خاکِ شفا سے لکھا علیؑ
دل پر لکھا حسینؑ ہے، از ربِ ذوالجلال

حق کے سفر میں حُر کو شہادت ہوئی نصیب
مجھ کو ملا حسینؑ ہے، از ربِ ذوالجلال

رازوں کا راز دار، چراغوں کا راز دار
رازِ خدا حسینؑ ہے، از ربِ ذوالجلال


22

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعر : جناب ارشاد نیازی صاحب

تیرگی ، گرد ، غم ، دھواں ، صحرا
شعلگی ، خیمے ، شب ، گماں، صحرا

پیاس ، لشکر ، نماز اور حیرت
صبر ، اکبرؑ ، جواں ، اذاں ، صحرا

حر ، عدو ، فوج ، ظلم ، در بدری
رحم ، شبیرؑ ، در ، اماں ، صحرا

ہونٹ ، پپڑی ، گھٹن ، زیاں ، کمسن
تیر ، اصغرؑ ، گلا ، نشاں ، صحرا

شور ، بازار ، بےردا ، زینبؑ
قہقہے ، شر ، صدا ، سگاں ، صحرا

جسم ، ٹکڑے ، لہو لہو ، گٹھری
عمر بھر ، دھوپ ، ایک ماں ، صحرا

سرخ سینہ ، بدن ، جواں ، کڑیل
تیغ ، خنجر ، اَنی ، کماں ، صحرا


23

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعر : جناب علی کوثر صاحب

دل سے جو بھی ہوا فدائے حسینؑ
مل گئے اس کو نقشِ پائے حسینؑ

دم بخود ہوگئی تھی فوجِ لعین
جس گھڑی کربلا میں آئے حسینؑ

اس کو کہتے ہیں صبرو استغنا ء
تیر کھا کر بھی مسکرائے حسینؑ

ظالموں کے ستم سہے لیکن
لب پہ شکوہ کبھی نہ لائے حسینؑ

خلعتِ ظلم تار تار ہوئی
پر سلامت رہی قبائے حسینؑ

مدتوں سے یہ آرزو ہے مری
لوگ مجھ کو کہیں گدائے حسینؑ

سرخ رو ہے حسینیت کا علم
ہر صدا بن گئ صدائے حسینؑ

یہ حقیقت ہے سارے عالم میں
بن کے تاریخ جگمگائے حسینؑ

جو عزادار ہیں علی کوثؔر
ان سے راضی ہوا خدائے حسینؑ "

24

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعر : جناب راحل بخاری صاحب

جونہی نامِ حسینؑ آتا ہے
اس دکھی دل کو چین آتا ہے

ایک صحرا سے مستغیث ہے دل
ایک خیمے سے بین آتا ہے

حرؑ نے اپنی گواہی دے دی ہے
اور ابھی ابن قینؑ آتا ہے

زخمِ زنجیر و زخمتِ گریہ
ہجر میں کس کو چین آتا ہے

ماسوا کچھ نہیں سوائے عزا
آپ کو عین غین آتا ہے؟

اشک دل کا غبار ہے راحلؔ
دل کے رستے میں نین آتا ہے


25

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعر : جناب کامران نفیس صاحب

جو تھے بیمار ان سب میں بھی دم خم آگیا ہے
عزادارو ! اٹھو ،  ماہِ محرم آگیا ہے

چراغ و مسجد و محراب و منبر مطمئن ہیں
سوارِ دوشِ پیغمبر ؐ مجسم آگیا ہے

منیٰ سے کربلا تک نور کی زنجیر تھامے
رضا و صبر کا اک نقش مبرم آگیا ھے

یہی غم ہے جو لے جاتا ہے ہم کو مصطفیٰؐ  تک
محرم آگیا ہے یعنی یہ غم آگیا ہے

مگر اب فائدہ ! سب پھول تو مرجھا گئے ہیں
مگر اب فائدہ جو موجہء یم آگیا ہے


26

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعر : جناب رحمن فارس صاحب

ہمیشہ بہتے رھیں گے آنسو، ہمیشہ ماتم بپا رہے گا
پُرانے ہوجائیں گے دوعالم، حُسَینؑ کا غم نیارہے گا

اُنہیں جو میرا سلام پہنچا تو مُجھ تک اُن کا پیام پہنچا
کہ تُو عزادار ہے ھمارا سو تُجھ سے اب رابطہ رہے گا

عزا کی مجلس سجانے والو ! جو مُجھ کو جُوتوں میں ھی بٹھا لو
تو زندگی بھر تمہارے حق میں فقیر محوِ دُعا رہے گا

ابھی تو ہر در پہ پھر رھے ھو مگر جب اِن سب سے کچھ نہ پاؤ
تو فوراً آجانا، سوچنا مت، حُسَین ؑ کا در کُھلا رہے گا

میاں ! یہ کوئی غزل نہیں ہے کہ آج ہے اور کل نہیں ہے
سلام ہے، اس لیے زمانے میں حشر تک گونجتا رہے گا

غمِ فلسطین، زخمِ کشمیر، خونِ بغداد، کربِ کابُل
یہ سب مِلا لیں تو پھر بھی اصغرؑ  کا گھاؤ ان سے بڑا رہے گا

مصائبِ اھلِ بَیتؑ کو یاد کرکے تھوڑا سا رو لیا کر
مصیبتوں سے اماں ملے گی، بلاؤں سے بھی بچا رہے گا

یہ جتنے جھنڈے ہیں مُلکوں مُلکوں، تمام مٹی میں جا مِلیں گے
خدائے واحد کی سلطنت میں عَلَم تو عبّاسؑ  کا رہے گا

سکون کا آزمودہ نُسخہ ہے، دل کی تختی پہ لکھ لے فارؔس
اُنہیں کوئی اور غم نہ ہوگا، جنہیں غمِ کربلا رہے گا


27

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعرہ : ارم اقبال نقوی صاحبہ

ساری دنیا کو غمِ شہؑ میں رُلانے والا
چاند ابھرا ہے عزا خانے سجانے والا

مرثیہ ، تعزیہ ، ماتم ، یہ مجالس گھر گھر
کون ہے شہؑ کی عزاداری مِٹانے والا

مائیں غازیؑ کے علم پر یہ دعا مانگتی ہیں
اِک پسر چاہیے پرچم کواٹھانے والا

ہم نے تہذیبِ عزا سے ہے تمدن سیکھا
ایک مظلوم گھرانہ ہے سکھانے والا

حر ؑ کے ماتھے پہ جو رومال تھا ، لکھا تھا وہاں
درِ زہرا ؑ پہ جبیں اپنی جھکانے والا

پھر تڑپنے لگے مقتل میں ہیں بے سر لاشے
کوئی ھل من کی صدا پھر ہے لگانے والا

مادرِ اصغرِ ؑبےشیر نہ بھولے گی کبھی
خود کو جھولے سے تڑپ کر وہ گرانے والا

اے سکینہ ؑ ، ذرا خاموش کہ مقتل میں ابھی
سو گیا ہے تجھے سینے پہ سلانے والا

لشکرِ شام تیرا نام رہے گا دشنام
خیمے سادات کےنخوت سے جلانے والا

ہیں رسن بستہ مگر پھر بھی خدا کو سجدے
یہ تودستور ہے نبیوں کے گھرانے والا

صوتِ داؤد ؑ کا مالک ہے لقب دین پناہ
سورہِ کہف کو نیزے پہ سنانے والا

نوحہ زینب ؑ کا یہی شام میں گونجا ہو گا
میرا غازیؑ ہے کہاں پردے بچانے والا

ہائے سجادؑ بندھے ہاتھوں لحد کھودتا ہے
اے سکینہؑ تیری میت کو اٹھانے والا

روک لے اپنا قلم ، دِ ل ہوا محزون ارؔم
غم یہ ورثہ میں مِلا ہے نہیں جانے والا


28

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعر : جناب کشور عدیل جعفری

ہر وقت ہر مقام سے آگے کی بات ہے
ذکرِحسینِؑ کام سے آگے کی بات ہے

آدم کی بات چھوڑ کہ یہ نورِپنجتنؑ
ترتیبِ صبح و شام سے آگے کی بات ہے

سجدے میں کیوں نبیؐ نے کیا دیر تک قیام
یہ سجدہ و قیام سے آگے کی بات ہے

دیکھو تو آگیا ہے ستارہ سلام کو
سمجھو تو یہ سلام سے آگے کی بات ہے

یہ بات کہ دوام ھے ذکرِحسینؑ کو
یہ بات بھی دوام سے آگے کی بات ہے

رکھوں نیامِ عقل میں کیوں ذوالفقارِعشق
یہ تیغ اس نیام سے آگے کی بات ہے

جواحترام کرتے ہیں کرتے رہیں مگر
شبیر ؑ احترام سے آگے کی بات ہے

ملتا ہے خاص خاص دلوں کو غمِ حسینؑ
یہ خاص بات عام سے آگے کی بات ہے

دریا کے ساتھ پیاس کا جڑنا محال تھا
یہ حسنِ انتظام سے آگے کی بات ہے

اصغرؑ نے مسکرا کے دیا تیر کا جواب
یہ خامشی کلام سے آگے کی بات ہے

روئے ہیں کربلا پہ بھی زینؑ العباء مگر
رونے کی حد تو شام سے آگے کی بات ہے

مجھ کو عطا کیا ہے جو مولا نے یہ سلام
یہ بالیقیں سلام سے آگے کی بات ہے

ھے جعفری تو نام کے پیچھے مرے عدیؔل
نسبت مگر یہ نام سے آگے کی بات ہے


29

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعر : جناب علی مان اذفر صاحب

حسینؑ سب کا ہے، ہائے! حسینؑ رب کا ہے
حسینؑ رب کا ہے، ہائے! حسینؑ سب کا ہے

حسینؑ پہلے کا تھا، اور حسینؑ اب کا ہے
نہیں تھا جب کوئی، یارو! حسینؑ تب کا ہے

حسینؑ ہی سے زمانے، حسینؑ ہی ہے زماں
حسینؑ دن کا ہے،لوگو! حسینؑ شب کا ہے

حسینؑ خلد کا سردار دین کا مالک
حسینؑ خلد کی زینت، حسینؑ سب کا ہے

زماں سے پہلے تھا شبیرؑ، جب تھے، لوح و قلم
فقط تھا، نور علیؑ جب، حسینؑ تب کا ہے


30

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعر : جناب خمار میرزادہ صاحب

ضمیر و ظرفِ ارزاں کی ابد مایہ گرانی ہے حسینؑ ابنِ علیؑ سے
فراتِ آگہی کا یہ مزاجِ بے کرانی ہے حسینؑ ابنِ علیؑ سے

حریرِ شامِ رفتہ مِیں ستارے ٹانکنے والا یہی اک جاوداں غم
چراغِ صبحِ آئندہ کی طولانی کہانی ہے حسینؑ ابنِ علیؑ سے

یہی حرؑ تھا کسی تاریکیِ شب مِیں یہی حرؑ ہے اِسی صبحِ نُمو مِیں
بشر کے ارتقائے لا زماں کی ہر نشانی ہے حسینؑ ابنِ علیؑ سے

تجھے نوکِ سناں سے سرفرازی دی گئی تھی اے کتاب حق پرستاں
تری آیاتِ حق آثار کی معجز بیانی ہے حسینؑ ابنِ علیؑ سے

زمانے ہو گئے لیکن یہ غَم جاتا نہیں ہے، دیدہ و دل مِیں ہے تازہ
اس آثارِ فنا آئین مِیں سب جاودانی ہے حسینؑ ابنِ علیؑ سے

نمودِ سجدہء آخر، گروہِ باصفا، نورِ ازل حلقہ بہ حلقہ
کوئی خلوت نُمائے لامکان آخر مکانی ہے حسینؑ ابنِ علیؑ سے

کہ جس میں اوّل و اوسط سے آخر تک محمدؑ ہیں مجسم نور ہیں سب
اِس اک صُلبِ تقدس کی ابد تک دودمانی ہے حسینؑ ابنِ علیؑ سے

اجل مَیں تجھ کو دکھلاتا ہوں ایسا منطقہ جس میں نہیں ہے دخل تجھ کو
اجل مَیں تجھ دے کہتا ہوں کہ تُو ''جاتی نہ آنی ہے'' حسینؑ ابنِ علیؑ سے

حقیقت جاگتی تصویر ہے جیتا تصور ہے دھڑکتا آئینہ ہے
بقا تجرید سے کٹ کر زمینی ہے زمانی ہے حسینؑ ابنِ علیؑ سے

یہ ہم جو جینے والے ہیں کچل کر بیعتِ دوراں، ہمارا اوّل آخر
حوالہ سرفرازی ہے تعارف زندگانی ہے حسینؑ ابنِ علیؑ سے


31

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعر: جناب منظر نقوی صاحب

خیمے میں خالی ہاتھ جب آئے حسینؑ تھے
جھولے کو دیکھ دیکھ کے عترتؑ کے بین تھے

جب حرملا کے تیر نے چھیدا تھا وہ گلا
اس دم رخِ حسینؑ پہ اصغرؑ کے نین تھے

بیٹا شہیدِ کربلا ، بیٹی قتیلِ شام
بی بی ربابؑ تیرے یہ دو نورِ عین تھے

مومن اٹھا کے لائے جب اصغرؑ کی یادگار
جھولے کے گرد ماتمی حلقوں کے شین تھے

ننھی سی قبر کھودی ہے مولاؑ نے سیف سے
اصغرؑ سا پھول خاک میں آنکھوں میں بین تھے

چھ ماہ کا صغیر ہوا قتل بار بار
شمشیر و تیر، نیزے تو ظالم کا چین تھے

شاہِ رسلؑ تھے شاہِ نجفؑ، شاہِ کربلاؑ
منظؔر ملول سارے تھے اصغرؑ تو زین تھے


32

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعرہ : محترمہ بتول مسرت صاحبہ

بنیاد حرف کُن ہے عمارت زمین کی
آلِ نبیؑ نے پائی صدارت زمین کی

سجدے سے اک حسینؑ کے پر نور ہوگئی
افلاک سے بھی بڑھ کے ہے عظمت زمین کی

کربل کی سر زمیں پہ بہا کر لہو امام
تبدیل کر گیا ہے وہ قسمت زمین کی

خون ِ رگ ِ حسینؑ گرا یوں زمین پر
افلاک سے سوا ہوئی حرمت زمین کی

عباسِؑ باوفا نے کرم اس قدر کیا
بازو گرے تو بڑھ گئی عزت زمین کی

آلِ نبی کے صدقے میں ہے یہ ملی ہوئی
بزم ِجہاں میں ہےجو بھی عظمت زمین کی


33

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعرہ : محترمہ ثمینہ سید صاحبہ

آنکھوں میں اشک ہیں جو ودیعت حسینؑ کی
ہر چیز سے بڑی ہے محبت حسینؑ کی

بے مثل بے مثال ہے جراءت حسینؑ کی
دیکھی ہے آسماں نے شجاعت حسینؑ کی

ہر سال کی طرح سبھی آنکھیں ہیں اشکبار
تاریخ لکھ رہی ہے شہادت حسینؑ کی

نوحے کہیں پہ ہیں کہیں زنجیر کی صدا
لگتا ہے ہر جگہ ہے حکومت حسینؑ کی

اتنے ہی ظالموں نے ستم در ستم کئے
جتنی تھی بردبار طبیعت حسینؑ کی

خیموں میں آگ ہے کہیں ہونٹو ں پہ پیاس ہے
دیکھو تو کربلا میں وراثت حسینؑ کی

ہر عہد ہے اٹا ہوا کربل کی دھول سے
ہر عہد کو رہے گی ضرورت حسینؑ کی

لکھی گئی جو ریت کے ذروں پہ خون سے
دنیا رکھے گی یاد قیادت حسینؑ کی


34

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعرہ : محترمہ ثوبیہ صابر صاحبہ

ملے جو اذنِ سخن، میں اگر کلام لکھوں
تو سب سے پہلے میں شبیرؑ پر سلام لکھوں

وہ جس نے کردیا سیراب سارے عالم کو
قصیدہء شہہِ معصوم و تشنہ کام لکھوں

فقط ہے تم سے مودت ہی فخر اس دل کا
اسے نکال کے لکھوں تو خود کو خام لکھوں

ہے میری آنکھ میں آنسو تو ہاتھ میں لرزہ
میں ایک گام رکوں اور ایک گام لکھوں

عطا ہوں مجھ کو بھی مولا وہ قوتیں دل کی
کہ مدحِ آلِ محمدؐ ، میں صبح و شام لکھوں

کہاں ہیں طاقتیں مجھ میں بیانِ اصغرؑ کی
صغیر باب حوائج کا کیا مقام لکھوں

جگر سے کھینچ کے برچھی پدر نے فرمایا
جوابِ نامہء صغراؑ میں کیا کلام لکھوں

علیؑ کے لہجے میں خطبہ دیا ہے زینبؑ نے
تیرے حجاب کا بی بیؑ میں کیا مقام لکھوں

کہاں ہے تاب ِسخن جو بیاں ہو فضلِ حسینؑ
قلم کو چھوڑ کے اشکوں سے احترام لکھوں


35

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعرہ : محترمہ رخشندہ بتول صاحبہ

مدحتِ آلِ عبا ؑ سے ذہن کو مہکاؤں میں
عالمِ عرفان میں سدرہ تلک ہو آؤں میں

خاک ہوجاؤں میں راہ ِکربلا کی خاک میں
زیرِ پائے زائرینِ محترم بچھ جاؤں میں

پھر بھی حقِ ماتمِ شبیرؑ کب ہو گا ادا
حضرتِ یعقوبؑ سےآنکھیں اگر لے آؤں میں

مجھ کو دیتی ہے سلامی آتی جاتی یہ ہوا
اپنے گھر پر پرچمِ عباسؑ جب لہراؤں میں

جھاڑ کر دامن وہ ماں قبرِ سکینہؑ سے اٹھی
مادرِ اصغرؑ کی حسرت کس طرح بتلاؤں میں

ہوں عزادارِ حسینیؑ ، نوحہ خوانِ سیدہؑ
کیوں کر اے رخشؔی شفاعت کے لیے گھبراؤں میں


36

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعر. : جناب شاہین فصیح ربانی صاحب

مہ و نجوم کو شرمائے کہکشانِ حسینؑ
کہ نورِ حق کا امیں ٹھہرا کاروانِ حسینؑ

کبھی ہوا کسی کردار پر گمانِ حسینؑ
"نہ داستاں ہے کوئی مثل داستان حسینؑ"

مہک سے روح تو رنگوں سے دل کو سیر کریں
کھلا رہا ہے عجب پھول گلستانِ حسینؑ

حسین خلد میں سردار ہیں جوانوں کے
تو انبیاؑء کے ہیں سردار نانا جانِ حسینؑ

صداقتوں کا تسلسل کبھی نہیں ٹوٹا
کبھی رکا نہ رکے گا یہ کاروانِ حسینؑ

مثال دیتا رہے گا ہزاروں سال جہاں
کہ زندہ کر گئی ہے دین ایک جانِ حسینؑ

یہ ماگتا ہے لہو رنگ روشنائی فصیؔح
ہو دستیاب جسے، وہ لکھے بیانِ حسینؑ


37
سلام یا حسینؑ 2019 
شاعر : جناب جمیل قمر صاحب

ہے دشتِ کربلا میں آج امتحانِ کربلا
سو کربلا میں آگیا ہے کاروانِ کربلا

بپا ہُوا تھا حشر کیا ، سُلگتے ریگزار پر
ہمیں بھی کچھ بتا اے چشمِ آسمانِ کربلا

پڑھی تھی شاہؑ نے نماز کیسے جٙلتی ریت پر
میانِ جنگ جب سُنائی دی اذانِ کربلا

وفاوں کا نصاب ہے مثالِ ماہتاب ہے
ورٙق ورٙق پہ نقش ہے جو داستانِ کربلا

ہزار ہا ستم کے باب کھول دوں جہان پر
اگر فرات کو بناوُں ترجمانِ کربلا

یہ شِیر خوار وہ جواں کہیں طماچوں کے نشاں
کوئی ہے شانِ کربلا کوئی ہے جانِ کربلا

قٙمٙر خُدا کے دِین کی نہ ہوتی ایسی برتری
نہ سٙر کٹاتا دشت میں جو خاندانِ کربلا


38

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعر : جناب شہاب صفدر صاحب

غم ِ حسینؑ سے مشروط زندگی ہے مری
بغیر اس کے ادھوری، ہر اک خوشی ہے مری

چمک رہی ہے جبیں کربلا کی مٹی سے
عزا کے اشک سے آنکھوں میں روشنی ہے مری

بریدہ  دستِ علم دار کی  بلندی سے
جفا نگر میں نشانِ وفا گلی ہے مری

مدار ِ سجدہ ء عاشور میں ہے دن میرا
طواف ِ شام ِ غریباں میں رات بھی ہے مری

رواں ہوں توڑ کے احرام سوئے کرب و بلا
خدا گواہ مسافت یہ آخری ہے مری

ہے ایک گھونٹ پہ کھلتا بھرم فراتوں کا
عجیب وضع کا پیمانہ تشنگی ہے مری

شہاؔب میں خط ِ انکار ہوں سر ِ دربار
جواز ِ جنت ِ تسلیم،  پیروی ہے مری


39

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعر : جناب دلاورعلی آزر صاحب

کھلے گا کس پہ مقامِ امامِ ؑعالی مقام
لکھے گا کون سلامِ امامِ ؑعالی مقام

جدا ہیں وقت کے دھارے سے یہ طلوع و غروب
نمودِ صبح ہے شامِ امامِ ؑعالی مقام

اسی کی لو سے مہ و مہر نے ضیا پائی
چمک رہا ہے جو نامِ امامِ ؑعالی مقام

میں چاہتا ہوں کہ محسوس ہو مجھے کسی دن
زمینِ دل پہ خرامِ امامِ ؑعالی مقام

خوشا نصیب کہ صحرائے کربلا میں ہُوا
شمارِ سجدہ قیامِ امامِ ؑعالی مقام

اِسی لیے تو بہت مہرباں ہوئی ہے زمیں
کہ یہ سخن ہے بہ نامِ امامِ ؑعالی مقام

مری شناخت سِوا اِس کے کچھ نہیں آزؔر
کہ میں ہوں ایک غلامِ امامِ ؑعالی مقام


40

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعرہ : پروفیسر رضیہ سبحان صاحبہ

سکوتِ جاں میں تو محفل سجا حُسینؑ کے نام
چراغِ زیست جلا، تو جلا حُسینؑ کے نام

عجیب خون کی ہولی تھی دشتِ کربل میں
مگر چمن میں ہر اک گل کھلا حُسینؑ کے نام

کچھ ایسے ہی نہیں نکلے تھے سر کٹانے کو
یہ قافلہ جو اٹھا تو چلا حُسینؑ کے نام

یہ کار زارِ وفا میں جو خاندان لٹا
ملا تھا اذن انہیں برملا حُسینؑ کے نام

لگا کے زینب ؑو زہرہؑ کے غم کو سینے سے
سَروں پر رکھی ہے ہم نے رِدا حُسینؑ کے نام

یہ خیر و شَر کی کڑی جنگ کے نتیجہ میں
بَپا ہے ذات میں اِک کربلا حُسینؑ کے نام

گزر چکیں کئی صدیاں، مگر ہے آج تلک
گزرتے وقت کی اِک اِک ادا حُسینؑ کے نام

نبیؐ کے آلؑ کی قدموں کی دھول ہم بھی ہیں
ہمیں بھی جامِ شہادت پلا حُسینؑ کے نام


41

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعر : جناب سید عرفی ہاشمی صاحب

تجھ کو اک انساں ہمیں الله کا چہرہ حسین ؑ
جس کی ہے جتنی بصیرت اسکا ہے اتنا حسین ؑ

میں بھی شاید اک شبِ عاشور کی تخلیق ہوں
مجھ میں بھی حرؑ کی طرح اک رات ٹھہرا تھا حسین ؑ

آج جوہوتا اسے اسلام کہنا کفر تھا
کل جو تھا اس کو اگر اسلام کہہ دیتا حسین ؑ

شمر و حرؑ دونوں سے اکثر دوستی رکھتے ہیں لوگ
دل یزیدی ہے مگر رہتا ہے لب پر یا حسینؑ

جیسے جیسے بڑھ رہے ہیں محفلوں میں سامعین
ویسے ویسے ہو رہا ہے اور بھی تنہا حسینؑ

بے نمازی جب سے ہیں فرشِ عزا پر موجزن
ہے فراتِ شورِ گریہ پر بہت پیاسا حسینؑ

مرضیِ یزداں کی عرفؔی آخری میزان پر
حوصلے کو تول کر میدان میں اترا حسینؑ


42

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعر : جناب فہیم شناس کاظمی صاحب

لہو میں، دل میں ازل سے مرے رہا ترا غم
خدا کا شکر ہے مولا ، مجھے ملا ترا غم

اسی کے دم سے گزرتی ہے زندگی آساں
ہمیشہ رکھے سلامت مرا خدا ترا غم

ہر ایک چیز زمانے میں ہے زوال پذیر
مگر ازل سے ہے کیسا ہرا بھرا ترا غم

مری بقا کا سبب صرف ہے ترا ماتم
مری نجات کے ضامن تری ولا، تراغم

مرے لیے تو ترا اسم، اسمِ اعظم ہے
ہمیشہ دور رکھے مجھ سے ہر بلا، ترا غم

ہمیشہ سینے پہ روشن نشانِ ماتم ہو
ہمارے رُخ پہ دمکتا رہے سدا ترا غم

گلی گلی سے صدا آئے یا حسینؑ، حسینؑ
گلی گلی میں ہے مولائے کربلا،ترا غم

ہوکوئی جبر کا موسم کہ صبر کا عالم
مرا ہمیشہ ہی مشکل کشا رہا ترا غم

یہ تیرا غم ہے کہ امرت ہے زندگی کے لیے
مرے لیے تو ہر اک سانس ہے دعا ترا غم

مری نمود،مری ہست و بود سب اِس سے
ہے میری روح، مری جاں، مری بقا! ترا غم

بہت قریب سے دیکھا ہے کربلا ہم نے
کہ ہم مناتے نہیں ہیں رواجیہ ترا غم

وہ کربلا ہو، نجف ہو کہ سامرا ہو شناسؔ
ہر اک مقام پہ ماتم، ہر ایک جا ترا غم


43

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعرہ: محترمہ شمسہ نجم صاحبہ

شبِ حیات میں جلتا دیا حسینؑ کا غم
سدا دلوں میں رہے گا ہرا حسینؑ کا غم

نہ پوچھ کون ہیں سب سے عزیز دنیا میں
ہیں اک رسول خدا دوسرا حسینؑ کا غم

نہ چھوٹ پائے گا دامانِ صبر تجھ سے کبھی
اگر پتہ ہو تجھے کیوں ملا حسین ؑکا غم

ہے حق بلند کہ باطل کا سر جھکا ہوا ہے
یزید ہے کہیں؟ زندہ رہا حسینؑ کا غم

غمِ حسینؑ سے بڑھ کر بھی کوئی غم ہے کیا؟
تبھی ہے باعثِ صبر و رضا حسینؑ کا غم

خیال و فکر کی شمسہؔ کشادگی ہو نصیب
دل و دماغ میں اپنے بسا حسینؑ کا غم


44

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعر : جناب سائل نظامی صاحب

کیوں کر کہیں بھلا کہ کوئی کم نصیب ہیں
اللہ کا کرم ہے کہ ہم غم نصیب ہیں

خوش وقتیوں میں ہر کوئی ساتھی ہے، دوست ہے
چیدہ چنیدہ ہیں جو محرّم نصیب ہیں

بنجر زمیں پہ اُگتی نہیں ہے وِلا کی فصل
اہلِ وِلا کے دل بھی خوشا نم نصیب ہیں

دس دن بھی رو نہ پائیں جو قتلِ حسینؑ پر
وہ لوگ سارا سال ہی ماتم نصیب ہیں

حرمل سے کم نصیب بہت ہیں جہان میں
حُرؑ ایسے اس زمین کو کم کم نصیب ہیں

ابنِ علیؑ کے پرسہ گزاروں میں نام ہے
مَیں اور جبرئیلِ امیں ہم نصیب ہیں

آخر کو پیش ہونا ہے غم خوار کے حضور
دم سازِ کربلا رہو، جو دم نصیب ہیں


45

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعر : جناب توقیر عباس صاحب

دل مانتا نہیں ہے کسی بے ضمیر کی
جب تک غمِ حسینؑ ہے پونجی فقیر کی

شاباش ! جس نے دینِ محمدؐ بچا لیا
دشنا م ! جس نے آلِ محمدؑ اسیر کی

شبیرؑ اپنے ہاتھ پہ لائے تھے اس لیے
تھی ٖڈھال دین کے لیے گردن صغیر کی

اس کا ضمیرِ ارض پہ اب تک نشان ہے
دل میں چبھی ہوئی ہے ابھی نوک تیر کی


46

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعر : ڈاکٹر آفتاب مضطر صاحب

چمک نہ ختم ہو جس کی یہ وہ ستارہ ہے
حسینؑ ، حُسنِ شہادت کا استعارہ ہے

حسینؑ وقت کے سینے میں مثلِ دل ہے مکیں
حسینؑ وقت کی ڈھرکن، سمے کا دھارا ہے

حسینیت کو پکارو کہ آج چاروں طرف
یزیدیت نے سیاست کا روپ دھارا ہے

حسینیت کے لیے کربلا ہے اِک نعمت
یزیدیت کے لیے کربلا ، خسارہ ہے

غمِ حسینؑ میں جیون گزار کے دیکھو
غموں کی دھوپ میں یہ غم بڑا سہارا ہے

رہے گا حشر تلک سر بہ سر بلندی پر
یہ دیں، حسینؑ کے خوں نے جسے ابھارا ہے

سلام! دیں کے نگہباں اے حسینؑ! سلام
تمہارے نام سے روشن یقیں ہمارا ہے

غمِ حسینؑ جسے راس آ گیا مضطؔر
اُسی کا اوج پہ چمکا ہوا ستارہ ہے


47

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعرہ : محترمہ زہراعلی صاحبہ 

دل کو تو نذرِ سیدِ بطحا کیا گیا
اور سر درِ حسینؑ پہ ہدیہ کیا گیا

اک شب رضائیں بیچی گئیں نفس کے عوض
اک روز کُل خدائ کا سودا کیا گیا

پہلے ہوا کے رُخ پہ جلایا گیا "دیا"
اور پھر دیا بُجھا کے اجالا کیا گیا

پہلے جواہرات اکھٹّا کیے گئے
پھر کربلا میں انکوقبیلہ کیا گیا

نعمت بنادیا گیا رونا حسینؑ پر
اشکوں کو رنج و غم کا مداوا کیا گیا

خاکِ شفا کو گوندھا گیا ہے خمیر میں
یوں مجھ کو انکا چاہنے والا کیا گیا

شہ رگ سے موڑ دی گئ خنجر کی دھار اور
اشکوں سے تخت کو تہہ و بالا کیا گیا!!

ہر عہد میں بپا ہوئ مجلس حسینؑ کی
ہر دور کے یزید کو رُسوا کیا گیا!!

صحرا میں بندگی کی بچانے کوآبرو
زخمی جبیں سے شکر کا سجدہ کیا گیا

پرچم کے ساتھ باندھی گئ ایک خشک مشک،
تصویر باوفا کا یوں نوحہ کیا گیا!!

نسبت سے انکی نام ہے زہرؔا علی مرا
یوں بھی شرف میں میرے اضافہ کیا گیا

48

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعر : جناب حسنین اکبر صاحب

منسوب رہ کے مدحِ شہِ بوتراب ؑ سے
خود کو بچا رہا ہوں خدا کے عذاب سے

صدیاں جُڑی ہوئی ہیں ترے انقلاب سے
سب نے دیے جلائے ہیں اس آفتاب سے

لکھی گئی ہیں کرب و بلا کی یہ آیتیں
لے کر مقطعات سب ام الکتاب سے

اتنی سی داستانِ سپاہِ یزید ہے
یہ لوگ رد ہوئے تھی علیؑ کی جناب سے

بر وقت حر ؑ نے دامنِ شبیرؑ تھام کر
دامن چھڑا لیا ہے حساب و کتاب سے

اللہ رے تبسمِ اصغرؑ کے معجزے
پتھر دلوں کو کاٹ دیا تھا گلاب سے

رومالِ سیدہ ؑ نے کہا حُرؑ کو دیکھ کر
دل خوش ہوا حسینؑ ترے انتخاب سے

اُس کی ہنسی میں اُڑ گئے بیعت کے سارے تیر
سر جھک گئے کمانوں کے بس اک جواب سے

اکبؔر شہادتِ علی اکبر ؑ دلیل ہے
وہ جنگ کر رہے تھے رسالت مآبؐ سے


49

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعر : جناب شکیل جاذب صاحب

جب کھینچ لی حرمل نے ادھر اپنی کماں اور
ہونٹوں پہ تبسم ہوا اصغرؑ کے جواں اور

تا حشر یہ دریائے عزاء بہتا رہے گا
ہر آن ترے نام پہ ہیں اشک رواں اور

پیوست کفِ شاہ سے اصغرؑ کا گلا ہے
باقی ہیں کفِ ظلم میں کیا تیغ و سناں اور

بطحا سے نجف تک ہیں رواں اشکوں کی لہریں
دی کرب و بلا میں علی اکبر ؑنے اذاں اور

بعد اُسکے بھلا خاک نہ کیوں جینے پہ ڈالیں
اکبرؑ سا کوئی ہو گا زمانے میں جواں اور ؟

جب آنکھیں برستی ہیں سرِ شامِ غریباں
بھر جاتا ہے جلتے ہوئے خیموں کا دھواں اور

بھر جائیں گے یہ طوق و سلاسل سے لگے زخم
لیکن دلِ سجّادؑ پہ باقی ہیں نشاں اور !

جاذؔب مرے مولاؑ نے اُٹھایا جسے سر پر
امت سے کہاں اُٹھتا تھا یہ بارِ گراں اور

50

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعر : جناب کاشف حیدر صاحب

اپنے اوپر بڑا احسان کیا ہے میں نے
مدحِ شبیر ؑمیں دیوان کیا ہے میں نے

موت کے وقت ملاقات کو آئے ہیں علیؑ
اس لئے موت کا ارمان کیا ہے میں نے

میرے ہونٹوں پہ بجز نام ِعلیؑ کچھ بھی نہیں
ورد اسطرح بھی قرآن کیا ہے میں نے

مجلسِ شہؑ کے لئے فرشِ عزا کھول دیا
اسطرح گھر کو گلستان کیا ہے میں نے

جب کیا قصد سفر کرب و بلا دل میں رہی
اپنی بخشش کا یہ سامان کیا ہے میں نے

اپنی آنکھوں میں لیے کرب و بلا کا منظر
پار ہر درد کا میدان کیا ہے میں نے

کر کے رد فتوی فروشوں کو سر فرش عزا
اپنی ہر سانس پہ احسان کیا ہے میں

جان دے کر بھی اٹھاؤں گا وفا کا پرچم
اپنی ماں سے یہی پیمان کیا ہے میں نے

فرشِ مجلس میں بہا کر غمِ شہہ میں آنسو
درد کا اپنے ہی درمان کیا ہے میں نے

ماتمِ سبط ِنبیؐ کر کے سر فرش ِعزا
کیا ہے مسلک مرا اعلان کیا ہے میں نے

مسکراتے ہوئے ہر زخم کو کھا کر کاشؔف
دشمنِ آ لؑ کو حیران کیا ہے میں نے

51

سلام یا حسینؑ 2019 
 شاعرہ :ڈاکٹر ثروت زہرا صاحبہ 

شعور کی کربلا سے
---------------
حسینؑ تنہا کھڑا ہوا ہے
فراتِ حق کی نڈھال موجیں
ہمارے ذہنوں کے ساحلوں پر
خود اپنے چہروں سے
منھ چھپائے ہوئے پڑی ہیں


ہماری فکروں کے سر د لاشے

زمینِ کربل کے زرد سورج کے
آبلوں سے اَ ٹے ہوئے ہیں
انھیں کفن بھی نہیں ملا ہے
حسین ؑتنہا کھڑا ہوا ہے



منافقت کے یزید اب تک

خیامِ شاہِ حرم پہ نیزے گرا رہے ہیں
اسیر زینبؑ کے آنچلوں کو جلا رہے ہیں
یہاں تلک کہ ہر ایک گودی میں آنے والا
عظیم سچ بھی بِلک رہا ہے
حسین تنہا کھڑا ہوا ہے



ہماری راتوں میں اب تلک اس

حرم کی شامِ غریب جیسا
ملال اور خوف جاگتاہے
ہمارے حرفوں کا سچ مقیّد،
ضمیر قیدی
کہیں سے ہم کو پکارتا ہے
حسینؑ تنہا کھڑا ہوا ہے
سو آﺅ ذہن وشعور کی کربلا سے
فرات ِ حق کے نئے دنوں کا
یہ آب لے لیں
کہ آﺅ ھل من کی اس صدا کا
جواب دے دیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

52

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعر : جناب وصی الحسن نقاش صاحب

کربلا اپنے ہی معیار سے وابستہ ہے
سارا دیں ایک ہی انکار سے وابستہ ہے

سر کٹا کے بھی جو دہراتا رہے کلمہ حق
وہ ہنر شہ ؑکے عزادار سے وابستہ ہے

یہ زمانے پہ کھلا حرؑ کے پلٹ آنے سے
کربلا خوبئ کردار سے وابستہ ہے

کربلا والوں نے بدلا ہے زمانے کا مزاج
اب شفا بھی کسی بیمار سے وابستہ ہے

اسلئے دل میں کسی کو نہیں رکھا میں نے
یہ مدینہ مرے سرکارؐ سے وابستہ ہے

چننے اس واسطے آئ ہیں اسے بنتِ نبیؐ
میرا آنسو میرے اظہار سے وابستہ ہے

کوئ رشتہ کبھی نقاؔش نہ رکھنا اس سے
جس کا ماضی کسی دربار سے وابستہ ہے


53


سلام یا حسینؑ 2019 
شاعر : جناب فیصل قادری گنوری صاحب

عظیم تر ہے زمانے میں خاندانِ حسینؑ
مہک رہا ہے ابھی تک وہ گلستانِ حسینؑ

بچانے عظمتِ اسلام کربلا کے لیے
چلا ہے آج مدینے سے کاروانِ حسینؑ

عدو تمہارے جہنم میں ڈالے جائیں گے
چلیں گے خلد کو محشر میں عاشقانِ حسینؑ

مقامِ آلِ پیمبرؑ کو کوئی کیا سمجھے
بیان کر نہ سکے گا کوئی بھی شانِ حسینؑ

یزیدی آتے مقابل میں کب تھی ان کی بساط
خدا کی مرضی تھی کربل میں امتحانِ حسینؑ

ستم لرزتا ہے نامِ حسینؑ سُنتے ہی
وفا پرستوں کے سر پر ہے سائبان حسینؑ

ہماری خوبی ء قسمت کے ہم بھی اے فیؔصل
گدائے شاہِ ؐمدینہ ہیں مدح خوانِ حسینؑ


54

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعر : جناب سعد الحسن سعد صاحب

شہید اُس طرف ہوا ہے ترجماں حسینؑ کا
ہے کربلا کے راستے میں کارواں حسینؑ کا

خیام کربلا کی ریت پر نبیؐ کی آلؑ کے
زمین فرش ہے تو عرش سائباں حسینؑ کا

وہ حُرؓ، یہ غازیؓ، قاسمؓ، اکبرِ علیؓ! لہو میں تَر
ہے ایک ایک جانشین و پاسباں حسینؑ کا

یہ تشنہ کام خوں میں تَر ہیں اصغرِ علیؓ کے لَب
جو جل رہا ہے آگ میں، ہے آشیاں حسینؑ کا

عظیم سے عظیم تر بلند سے بلند ہے
جھکا نہیں ہے دیکھ سَر سرِ سناں حسینؑ کا

گلی گلی نگر نگر حسینؑ ہی حسینؑ ہے
جہان ہے تمام آج نعت خواں حسینؑ کا

دعا ہے یہ، تا حشر ہر زمان میں، بہے ہے غم

بہ صورتِ لہو بہ چشمِ مومناں، حسینؑ کا


55

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعر : جناب افتخار حیدر صاحب

مدح خیرالانامؑ لکھتے ہیں
آؤ تازہ سلام لکھتے ہیں

ہم کہ لکھتے ہیں جونؑ کو آقا
خود کو ان کا غلام لکھتے ہیں

جو سمجھتے ہیں مرتبہ حرؑ کا
حر علیہ السلام لکھتے ہیں

تیرا رتبہ خدا ہی جانے حبیبؑ
تجھ کو مولاؑ سلام لکھتے ہیں

قسمتِ نوعِ انس و جاں اکثر
ان کے در کے غلام لکھتے ہیں

اجر آلِ نبیؐ سے ملتا ہے
ہم جو پختہ یا خام لکھتے ہیں


56

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعر : جناب احمر شہوار صاحب 

شعورِ کلمہِ لا ہے تو بس حسینؑ سے ہے
جہاں میں نامِ خدا ہے تو بس حسین ؑسے ہے

اُسی کے خون کی لالی شفق کا غازہ ہے
لباسِ کعبہ سیہ ہے تو بس حسین ؑسے ہے

یہ آہِ سرد کی سوزش یہ اشکِ غم کی تپش
یہ دل کی آب و ہوا ہے تو بس حسین ؑسے ہے

بدن میں دِیں کے تنفس فقط علی سے ہے
لہو جو دوڑ رہا ہے تو بس حسین ؑسے ہے

سجودِ اہلِ وفا اور انبیا ؑ کا طواف
زمیں یہ قبلہ نما ہے تو بس حسینؑ سے ہے

مریضِ عشق یا بیمارِ زوق ِ آگاہی
انہیں امیدِ شفا ہے تو بس حسین ؑسے ہے

چراغ بجھتے ہی قندیل ہو گیا خیمہ
دِیوں میں اب جو ضیا ہے تو بس حسین ؑسے ہے

نہ مار بالی سکینہؑ کو تازیانے شمر
لعین تجھ کو گلہ ہے تو بس حسینؑ سے ہے

علم جو پلٹا تو زینبؑ کو ہو گیا یہ یقین
سروں پہ باقی ردا ہے تو بس حسینؑ سے ہے

اٹھائے کون یہ بارِ گرانِ خونِ صغیر
سوالِ ارض و سما ہے تو بس حسینؑ سے ہے

یہ بات طے ہے کہ شہواؔر اب قیامت تک
سقوطِ ظلم و جفا ہے تو بس حسینؑ سے ہے


57

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعر : جناب فرحت ندیم ہمایوں صاحب

یہ وقت ہے دکھاؤ شجاعت حسینؑ کی
اب بھولنا نہیں ہے شہادت حسینؑ کی

باطل کا ساتھ چھوڑ دو حق کا علم اٹھاؤ
گر ہے تمہارے دل میں محبت حسینؑ کی

پھر سے یزید آگیا مودی کی شکل میں
پھر ہم کو پڑ گئی ہے ضرورت حسینؑ کی

کشمیر بن گیا ہے مرا دشت کربلا
اس وقت چاہیے ہے قیادت حسینؑ کی

ہوتی ہیں ماؤں بہنوں کی پامال عزتیں
کشمیر میں بچانا ہے حرمت حسینؑ کی

اس وقت اس کا صورت حُر ساتھ دیجیے
عمران بن گیا ہے علامت حسینؑ کی

اسلامی ملک کرنے لگے بیعت یزید
لیکن کریں گے ہم تو اطاعت حسینؑ کی

کٹ جائے سر، جھکانا نہیں تم اسے ندیمّ
کرنا ہے ہم کو پوری یہ سنت حسینؑ کی


58

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعرہ : ڈاکٹر ثروت رضوی صاحبہ

مجلسٍ شہہؑ کیجیے گھر کو منور دیکھیے
آمد جن و ملک اللہ ہو اکبر دیکھیے

کیجیے ذکر شہادت لہجہ نمناک سے
دیکھیے کرب و بلا منظر بہ منظر دیکھیے

دیکھیے فرش عزا پہ فاطمہ کو نوحہ کن
دیکھیے گریہ کناں شہہؑ کا بھرا گھر دیکھیے

ایک ہی للکار میں دریاسے بھاگے سب عدو
حضرتٍ عباسؑ میں حیدرؑ کے جوہر دیکھیے

پا گیا معراج اک شب میں شہادت کی جری
مرحبا صد مرحبا حرؑ کا مقدر دیکھیے

پیاس کی شدت سے باہر آگئی سوکھی زباں
شاہِؑ دیں کے ہاتھ میں بے تاب اصغرؑ دیکھیے

سینہ اکبرؑ میں ہے پیوست برچھی کی انی
نوجوان کی لاش پر ماں ہے کھلے سر دیکھیے

ہائے وہ کمسن یتیمہ اور طمانچے الاماں
لے گیے ہیں اشقیا کانوں سے گوہر دیکھیے

اور جز اسکے سوا ثروتؔ مری کیا نوکری
لکھ رہی ہوں مدحتٍ سرور میں دفتر دیکھیے


59

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعر : جناب انعام الحق معصوم صابری صاحب

وہ خود ہیں منفرد تو گھرانا ہے منفرد
سارے جہان میں تو مدینہ ہے منفرد

کی آلؑ کربلا میں تھی قربان دین پر
ناناؐ ہیں منفرد تو نواسہؑ ہے منفرد

دنیا میں لوگ کرتے تلاوت ہیں دوستو
لیکن حسینؑ کا تو سلیقہ ہے منفرد

کر کے چراغ گل وہاں جانے کو جب کہا
اصحاب کا وہیں پہ ٹھہرنا ہے منفرد

اصغر ؑنے ریت میں لہو اپنا بہا دیا
حلقوم دین پر تو کٹانا ہے منفرد

اسلام کی بقا پہ شہادت حسینؑ کی
انداز منفرد ہے طریقہ ہے منفرد

غم میں حسینؑ کے عزاداری کرے ہے جو
معصوم وہ غلام بھی ان کا ہے منفرد


60

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعر : جناب شاہ بابا صاحب

نڈھال ہوتا بدن، بہر سجدہ جھکتی جبیں
مرے حسینؑ کی پیشانی چومتی ہے زمیں

حسینؑ جرات حیدر کا پاسبان و امیں
حسینؑ عکسِ جمال و کمالِ سرورِ دیںؑ

ہوئے جو واقف حالات کربلا آقا
تو آنکھ نم ہوئی، سرکار ہو گئے غمگیں

اِدھر غروب سرِ ریگزارِ کرب و بلا
اُدھر طلوع سرِ مرغزارِ خلدِ بریں

لو ان کا نام لیا وجد آ گیا مجھ کو
میں سوچتا ہوں کہ مولا کہیں یہیں تو نہیں

نہیں ہے دوشِ پیمبر فرازِ عرش سے کم
تو بارہا ہوئے شبیرؑ ایسے عرش نشیں

ملا ہے آلِ پیمبرؑ کا جب لہو اس میں
مزاجِ خاک اسی دم سے ہو گیا مشکیں

حسینؑ ہے متمکن رضا کی مسند پر
حسینؑ رونقِ عرشِ علائے عزم و یقیں

نصیب والوں کو ملتا ہے کربلا کا غم
کہ سانحہ یہ نہیں عام، درد عام نہیں

غریب و سادہ تھی عاجز جو داستانِ حرم
وہ خونِ حضرتِ شبیرؑ سے ہوئی رنگیں

61

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعرہ : محترمہ فرح کامران صاحبہ

گریہ ہے بپا ذکر حسینؑ ابن علی ہے
ماتم کی صدا ہے کہیں زنجیر زنی ہے

ہے پیاس ادھر سامنے موجوں کا تلاطم
کیا تشنہ لبی، تشنہ لبی، تشنہ لبی ہے

جاتے ہیں حسینؑ ابن علی جانب مقتل
ہل من کی صدا چار طرف گونج رہی ہے

چھینو نہ گہر، بچی کو مارو نہ طمانچہ
شبیرؑ کی بیٹی ہے یہ، نازوں کی پلی ہے

اے شمر لعیں روک لے ہاتھوں کو ذرا تو
زینبؑ پس پردہ کھڑی سب دیکھ رہی ہے


62

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعر : جناب ندیم ملک صاحب

دھوپ،صحرا،پیاسے بچے، نینوائے العطش
ہر طرف سے آ رہی ہے اک صدائے العطش

پانی لانے کی اجازت بھی نہیں عباسؑ کو
اور خیموں سے مسلسل ہائے ہائے العطش

تیرے پیارے مصطفیؐ کی آل ہے تشنہ بلب
موڑ دے اس سمت کو دریا، خدائے العطش

جانے کیسے ساقئ کوثرؑ نے دیکھا آب کو
کہہ رہے تھے بچے جب پیالے اُٹھائے العطش

لعنتیں تاریخ نے لکھ دیں مقدر میں ندیمؔ
کربلا میں جس نے رکھ دی ہے بِنائے العطش


63

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعرہ : محترمہ تسنیم عابدی صاحبہ 

اوجِ امکانِ بشر کا سلسلہ ہے کربلا
عبدیت کی شانِ تسلیم و رضا ہے کربلا

روح ہو بیمار تو خاکِ شفا ہے کربلا
خالقِ اکبر کا زندہ معجزہ ہے کربلا

غم گساری، دوست داری ، بیقراری کے لئے
کربلا ہے ، کربلا ہے ، کربلا ہے کربلا

عشق کی تاریخ سے آواز آتی ہے یہی
سیکھنا چاہو تو تہذیب عزا ہے کربلا

بانیانِ ظلم مٹ سکتا نہیں ذکرِ حسین ؑ
جبر کے ماحول میں تازہ ہوا ہے کربلا

گردشِ ایام سے محفوظ رکھنے کے لئے
ہیں بہتر زخم اور دل کی دوا ہے کربلا

زائرینِ روضہ شبیرؑہیں اس سوچ میں
خلد ہے یا خلد کا اک راستہ ہے کربلا

نوکِ نیزہ سے جہاں ہرجیت کا اعلان ہو
ربِ کعبہ کی قسم وہ معرکہ ہے کربلا


64

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعر : جناب رحمان حفیظ صاحب

دورِ ابطال میں احقاق کا معیار حسینؑ
دارِ ظلمات میں ہے مطلعِ انوار حسینؑ

دلِ مصّفّٰی، نظر آئینہ، سخن گوہر دار
زندگی کے لئے گنجینہء کردار حسینؑ

یہ خوشی ہی تو مری زیست کا سرمایہ ہے
میرا منصب ہے کہ ہُوں تیرا عزادار حسینؑ

اس نے کیا کیا نہ جری دیکھےمحاذوں پہ مگر
فخر بس تجھ پہ کیا کرتی ہےتلوار ،حسینؑ

دیکھ کر تیری شجاعت ، یہ موّرخ نے کہا
یاد آتے ہیں مجھے حیدرِ کّرار ، حسینؑ

ہے یہ ماتم تری عظمت کی شہادت ورنہ
کوئی دُوجے کا اٹھاتا نہیں آزار حسینؑ


65

سلام یا حسینؑ 2019 
شاعر : جناب نثار محمود تاثیر صاحب

گہے مناظرِ کربل ، گہے حسینؑ کے لب
نمیدہ چشم ہوں میں سوچ کے، حسینؑ کے لب!

میں سوچتا ہوں تو منہ کا لعاب سوکھتا ہے
وہ دشت، پیاس، تپش، اور مرے حسین ؑکے لب

کلی؟گلاب؟ نہیں! ، پنکھڑی یا اوس؟نہیں!
نزاکتوں کی بھی معراج تھے حسینؑ کے لب

سوال برسرِنیزہ صداۓ حمد کا تھا
سو کائنات سے رب نے چنے حسینؑ کے لب

یہ وقت کاش پلٹتا تو کاٹ ڈالتا میں
وہ ہاتھ جس نے چھڑی سے چھوئے حسینؑ کے لب












کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Search This Blog

پیروکاران

کچھ میرے متعلق

میری تصویر
قارئینِ محترم ! فیس بک پر سلام یاحسینؑ 2019 کے تحت آن لائن مسالمہ بھی حسبِ روایت محرم الحرام کے پہلے عشرے میں منعقد پوا اور 12 محرم تک جاری رہا۔ امریکہ میں میں مقیم نامور شاعر اور مرثیہ گو مجید اختر صاحب کی زیرِ نظامت اس آن لائن مسالمہ کا پچھلے چھ سال سے یعنی سال 2014 سے ہر سال محرم الحرام میں باقاعدگی سے اہتمام کیا جاتا ہے اور اس میں مختلف ملکوں میں مقیم شعرائے کرام بھی شرکت فرماتے ہیں ۔

آمدو رفت

تعارف

یہ بلاگ سلام یاحسینؑ آن لائن مسالمہ کے تحت تشکیل دیا گیا ہے ۔ 

محفوظات